تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
ہم نہیں چاہتے کمی اپنی شب دراز میں
اور ہی رنگ آج ہے عارض گل عذار کا
خون دل اپنا تھا مگر گو نہ رخ طراز میں
کیونکہ نہ آدھی آدھی رات جاگے وہ جس کا دھیان ہو
آہوئے نیم خواب میں نرگس نیم باز میں
خسرو عیش وصل یار جاں کنی اور کوہ کن
اپنا جگر تو خوں ہوا عشق کے امتیاز میں
بن ترے بزم صور میں ہیں یہ قباحتیں کہ ہے
نغمۂ صور کا اثر نغمۂ نے نواز میں
ان سے اب التفات کی غیر کو ہیں شکایتیں
سن کے مرا مبالغہ منت احتراز میں
کیا سبھی سینے جل چکے کیا سبھی دل پگھل چکے
بوئے کباب اب نہیں آہ جگر گداز میں
پردہ نشیں کے عشق میں پردہ دری نہ ہو کہیں
ہوتی ہیں بے حجابیاں جان نہفتہ راز میں
رخنۂ در سے غیر پاس دیکھا کسے کہ آج ہے
رخنہ گری کچھ اور ہی نالۂ رخنہ ساز میں
یاد بتاں میں لاکھ بار فرط قلق سے ہم بھی تو
بیٹھے اٹھے ہیں مومنؔ آپ گر رہے شب نماز میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |