تجھے نامہ بر قسم ہے وہیں دن سے رات کرنا
تجھے نامہ بر قسم ہے وہیں دن سے رات کرنا
کوئی ایک بات پوچھے تو ہزار بات کرنا
نہیں اور خوف قاصد مگر ایک بات کا ہے
جو رقیب بھی وہاں ہو بہت التفات کرنا
وہ ہو تیز رو نہ پائے کوئی تم کو حضرت دل
رہ دوست میں جو چلنا تو ہوا کو مات کرنا
مرے دل کی قیمت اتنی نہ بڑھاؤ کون لے گا
جو تمہیں نہ جانتا ہو یہ اسی سے گھات کرنا
نکل آئیں گے وہ باہر وہیں شور سن کے اے دل
کبھی ان کے کے گھر پہ جا کر کوئی واردات کرنا
وہ کریم کیا نہیں ہے وہ رحیم کیا نہیں ہے
کبھی داغؔ بھول کر بھی نہ غم نجات کرنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |