تجھے کہتا ہوں اے دل عشق کا اظہار مت کیجو
تجھے کہتا ہوں اے دل عشق کا اظہار مت کیجو
خموشی کے مکاں میں بات اور گفتار مت کیجو
محبت میں دل و جاں ہوش و طاقت سب اکارت ہے
کہو کوئی عقل کوں جا کر بڑا بستار مت کیجو
عوض نقد دعا کے مفت ہے دشنام اس لب سیں
ارے دل عشق کے سودے میں پھر تکرار مت کیجو
اسے اونچا ہے ظالم دام نے تجھ مہربانی کے
ہمارے صید دل اوپر ستم کا وار مت کیجو
اگر خواہش ہے تجھ کوں اے سراجؔ آزاد ہونے کی
کمند عقل کوں ہرگز گلے کا ہار مت کیجو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |