تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
برسا نہیں اب تک کہیں ابر بہاراں اس قدر
گلشن میں گر دیکھیں مجھے ہوئیں سنبل و نرگس خجل
دل ہے پریشاں اس قدر آنکھیں ہیں حیراں اس قدر
رکھتا ہے تو جس جا قدم ہوتا ہے لوہو کا نشاں
پامال کرتا ہے کوئی خون شہیداں اس قدر
ڈھونڈھے جو تو دامن تلک پاوے نہ ثابت تو اسے
میں چاک پھرتا ہوں کئے ناصح گریباں اس قدر
بیدارؔ کو دکھلا کے تو نے قتل اوروں کو کیا
کرتا ہے اے ظالم کوئی ظلم نمایاں اس قدر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |