تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم

تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
by جوشش عظیم آبادی

تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
جتنے سفید پوش ہیں سب ہیں سیاہ چشم

اس مہروش کے ہونے نہ دے گریہ رو بہ رو
جب تک سفید ہووے نہ مانند ماہ چشم

اندھیر ہے دیار محبت میں ہمدماں
تقصیر دل کی ٹھہرے کرے جو گناہ چشم

دونوں مکان غیر سے خالی ہیں آ کے بیٹھ
تیرے پسند خواہ یہ دل آئے خواہ چشم

اس کی شب فراق میں اتنا تو رو کہ ہو
دریائے اشک میں تری کشتی تباہ چشم

مجھ کو جلا کے خاک کیا اور بہا دیا
تم سے تو یہ نہ تھی مجھے اے اشک و آہ چشم

ؔجوشش وہ کون سا ہے جفا کار جس پر آج
منہ پر لہو ملے ہوئے ہے داد خواہ چشم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse