تحدید اسلحہ

تحدید اسلحہ (1942)
by سعادت حسن منٹو
319913تحدید اسلحہ1942سعادت حسن منٹو

بین الاقوامی سیاست اتنی پیچ دار اور الجھی ہوئی ہے کہ اس کو سمجھنا کام رکھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بھول بھلیوں میں انسان گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ تحدید اسلحہ کے متعلق آپ نے بیسیوں مرتبہ اخباروں میں پڑھا ہوگا مگر سچ کہیئے کہ آپ نے اس کے متعلق کیا سمجھا؟ لیکن میں آپ کی عقل و دانش کا امتحان لینا نہیں چاہتا۔ میں نے اس کے متعلق جو کچھ سمجھا ہے، وہ نہایت سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے، یعنی اس طور پر کہ بچے کو بھی غلط فہمی نہ ہو سکے۔

فرض کر لیجئے کہ آپ اور میں ذرا کم سمجھ والے واقع ہوئے ہیں۔ میرے پاس تکیہ ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ تکیہ میں آپ کے سر پر دے ماروں۔ آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ اسے میرے سر پر پھوڑ دیں۔ گویا تکیہ اور انڈہ ہمارے اسلحہ ہیں۔ امن قائم رکھنے کی خاطر ہم آپس میں سمجھوتہ کرنے کے لئے تحدید اسلحہ کی ایک مجلس منعقد کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے لئے ایک تکیہ رکھنے کے حقوق حاصل کریں گے اور میں ایک انڈہ رکھنے کا حق طلب کروں گا۔ گویا ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے کو برابر کا ضرر پہنچانے کا سامان ہوگا۔ ہم دونوں میں سے کسی کو حق نہیں ہوگا کہ دوسرے کے مشورے کے بغیر اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کر کے باہمی امن کو خطرے میں ڈالے۔

اب کچھ دیر کے بعد میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک قلم تراش ہے، جو وقت پر مہلک ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر آپ میری توجہ اس امر کی طرف منعطف کراتے ہیں کہ میری ملکیت میں ایک کلہاڑی ہے جس سے میں ایک ہی ضرب میں گردن اڑا سکتا ہوں۔ اس پر ہمارے دلوں میں دفعتاً جذبۂ امن پسندی کروٹ لیتا ہے اور میں جھٹ سے ایک قلم تراش خرید لیتا ہوں اور آپ اولین فرصت میں کلہاڑی لے آتے ہیں۔

اب حالات بین الاقوامی سیاسیات کی طرح ترقی پذیر ہو جاتے ہیں اور ایک روز میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میرے ہتھیاروں کے جواب میں آپ کے پاس بھی اس قسم کے ہتھیار موجود ہیں اس لئے مجھے بازار سے پستول خریدنے میں کوئی دیر نہ کرنی چاہیئے۔ بات باون تولے پاؤرتی کی ہے۔ جب میں پستول خرید لاتا ہوں تو آپ پستول کے ساتھ ساتھ ایک چمکیلی تلوار بھی لے آتے ہیں۔ اب فطری طور پر میں بھی تلوار خرید لیتا ہوں اور ساتھ ساتھ تحدید اسلحہ کے جذبے کے ماتحت ایک مشین گن بھی گاڑی پر لدوا کر لے آتا ہوں، تو سمجھ لیجئے کہ اب امن و امان قائم ہونے میں کوئی دیر نہیں۔ آپ دوڑ کر بہترین اسلحہ ساز کے یہاں سے ایک عمدہ قسم کا تباہ کن ٹینک لے آتے ہیں اور لگے ہاتھوں ایک بڑا سا بم بھی خرید لیتے ہیں، جس سے میرے گھر کی چھت بھک سے اڑائی جا سکتی ہے۔

خاکسار بھی آپ کی دیکھا دیکھی دو ایک گولے گھر میں ڈال دیتا ہے اور بطور حفظ ماتقدم گیس بنانے والوں کو چند سلنڈر زہریلی گیس تیار کرنے کی فرمائش بھی کر ڈالتا ہے۔ اس گیس سے آپ کے بال بچوں کا رنگ پیلا پڑ سکتا ہے اور آپ کے چہرے پر سوکھے ہوئے بینگن کی طرح جھریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس پر آپ اس قسم کی گیس تلاش کر لیتے ہیں جو میرے سر، میری ٹانگوں اور میرے بازوؤں کو سرے سے غائب ہی کر دے، پھر آپ احتیاطاً ایک بمبار طیارہ بھی اپنے گھر میں لے آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ اس طرح ’’غیر مسلح‘‘ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے درمیان جنگ کا خیال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ہم ایک دوسرے کو بالکل فنا کر دیتے ہیں، مگر یہ تباہی اتفاقی ہوگی۔ اس کا کچھ خیال نہیں کرنا چاہیئے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.