ترقی پسند
جوگندر سنگھ کے افسانے جب مقبول ہونا شروع ہوئے تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو اپنے گھر بلائے اور ان کی دعوت کرے۔ اس کا خیال تھا کہ یوں اس کی شہرت اور مقبولیت اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔
جوگندر سنگھ بڑا خوش فہم انسان تھا۔ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو اپنے گھربلاکر اور ان کی خاطر تواضع کرنے کے بعد جب وہ اپنی بیوی امرت کور کے پاس بیٹھتا تو کچھ دیر کے لیے بالکل بھول جاتا کہ اس کا کام ڈاک خانے میں چٹھیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اپنی تین گزی پٹیالا فیشن کی رنگی ہوئی پگڑی اتار کر جب وہ ایک طرف رکھ دیتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کے لمبے لمبے کالے گیسوؤں کے نیچے جو چھوٹا سا سر چھپا ہوا ہے اس میں ترقی پسند ادب کوٹ کوٹ کر بھراہے۔ اس احساس سے اس کے دماغ میں ایک عجیب قسم کی اہمیت پیدا ہو جاتی اور وہ یہ سمجھتا کہ دنیا میں جس قدر افسانہ نگار اور ناول نویس موجود ہیں سب کے سب اس کے ساتھ ایک نہایت ہی لطیف رشتے کے ذریعے سے منسلک ہیں۔
امرت کور کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اس کا خاوند لوگوں کو مدعو کرنے پر اس سے ہر بار یہ کیوں کہا کرتا ہے،’’امرت، یہ جو آج چائے پر آرہے ہیں، ہندوستان کے بہت بڑے شاعر ہیں۔سمجھیں، بہت بڑے شاعر۔ دیکھو ان کی خاطرتواضع میں کوئی کسر نہ رہے۔‘‘ آنے والا کبھی ہندوستان کا بہت بڑا شاعر ہوتا تھا یا بہت بڑا افسانہ نگار۔ اس سے کم پائے کا کوئی آدمی وہ کبھی بلاتا ہی نہیں تھا۔ اور پھر دعوت میں اونچے اونچے سُروں میں جو باتیں ہوتی تھیں ان کا مطلب وہ آج تک نہ سمجھ سکی تھی۔ ان گفتگوؤں میں ترقی پسندی کا ذکر عام ہوتا تھا۔ اس ترقی پسندی کا مطلب بھی امرت کور کو معلوم نہیں ہوتا تھا۔
ایک دفعہ جب جوگندر سنگھ ایک بہت بڑے افسانہ نگار کو چائے پلاکر فارغ ہوا اور اندر رسوئی میں آکر بیٹھا تو امرت کور نے پوچھا، ’’یہ موئی ترقی پسندی کیا ہے؟‘‘
جوگندر سنگھ نے پگڑی سمیت اپنے سرکو ایک خفیف سی جنبش دی اور کہا،’’ترقی پسندی۔۔۔ اس کا مطلب تم فوراً ہی نہیں سمجھ سکو گی۔ ترقی پسند اس کو کہتے ہیں جو ترقی پسند کرے۔ یہ لفظ فارسی کا ہے۔ انگریزی میں ترقی پسند کو ریڈیکل کہتے ہیں۔وہ افسانہ نگار، یعنی کہانیاں لکھنے والے، جو افسانہ نگاری میں ترقی چاہتے ہوں ان کو ترقی پسند افسانہ نگار کہتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں صرف تین چار ترقی پسند افسانہ نگار ہیں جن میں میرا نام بھی شامل ہے۔‘‘
جوگندر سنگھ عادتاً، انگریزی لفظوں اور جملوں کے ذریعے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت پک کر، اب طبیعت بن گئی تھی۔ چنانچہ اب وہ بلاتکلف ایک ایسی انگریزی زبان میں سوچتا تھا جو چند مشہور انگریزی ناول نویسوں کے اچھے اچھے چست فقروں پر مشتمل تھی۔ عام گفتگو میں وہ پچاس فیصدی انگریزی لفظ اور انگریزی کتابوں سے چنے ہوئے فقرے استعمال کرتا تھا۔ افلاطون کو وہ ہمیشہ پلیٹو کہتا تھا۔ اسی طرح ارسطو کو ارسٹوٹل۔ ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ ،شو پنہار اور نطشے کا ذکر وہ اپنی ہر معرکے کی گفتگو میں کیا کرتا تھا۔ عام بات چیت میں وہ ان فلسفیوں کا نام نہیں لیتا تھا اور بیوی سے گفتگو کرتے وقت وہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتا تھا کہ انگریزی لفظ اور یہ فلسفی نہ آنے پائیں۔
جوگندر سنگھ سے جب اس کی بیوی نے ترقی پسندی کا مطلب سمجھا تو اسے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ترقی پسندی کوئی بہت بڑی چیز ہوگی جس پر بڑے بڑے شاعر اور افسانہ نگار اس کے خاوند کے ساتھ مل کر بحث کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب اس نے یہ سوچا کہ ہندستان میں صرف تین چار ترقی پسند افسانہ نگار ہیں تو اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوگئی۔ یہ چمک دیکھ کر جو گندرسنگھ کے مونچھوں بھرے ہونٹ ایک دبی دبی سی مسکراہٹ کے باعث کپکپائے، ’’امرت۔۔۔ تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہندستان کا ایک بہت بڑا آدمی مجھ سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس نے میرے افسانے پڑھے ہیں اور بہت پسند کیے ہیں۔‘‘
امرت کور نے پوچھا،’’یہ بڑا آدمی کَوِی ہے یا آپ کی طرح کہانیاں لکھنے والا۔‘‘
جوگندر سنگھ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ کی پشت پر تھپتھپاتے ہوئے کہا،’’یہ آدمی کَوِی بھی ہے افسانہ نگار بھی ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی جو اس کی نہ مٹنے والی شہرت کا باعث ہے ،اور ہی ہے۔‘‘
’’وہ خوبی کیا ہے؟‘‘
’’ وہ ایک آوارہ گرد ہے۔‘‘
’’آوارہ گرد؟‘‘
’’ ہاں، وہ ایک آوارہ گرد ہے جس نے آوارہ گردی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے۔۔۔ وہ ہمیشہ گھومتا رہتا ہے۔۔۔ کبھی کشمیر کی ٹھنڈی وادیوں میں ہوتاہے اور کبھی ملتان کے تپتے ہوئے میدانوں میں۔۔۔ کبھی لنکا میں کبھی تبت میں۔۔۔‘‘
امرت کور کی دلچسپی بڑھ گئی،’’مگر یہ کرتا کیا ہے؟‘‘
’’گیت اکٹھے کرتا ہے۔۔۔ ہندستان کے ہر حصے کے گیت۔۔۔ پنجابی، گجراتی،مرہٹی، پشاوری، سرحدی، کشمیری، مارواڑی۔۔۔ ہندستان میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، ان کے جتنے گیت اس کو ملتے ہیں اکٹھے کر لیتا ہے۔‘‘
’’اتنے گیت اکٹھے کرکے کیا کرے گا؟‘‘
’’کتابیں چھاپتا ہے، مضمون لکھتا ہے تاکہ دوسرے بھی یہ گیت سن سکیں۔ انگریزی زبان کے کئی رسالوں میں اس کے مضمون چھپ چکے ہیں۔ گیت اکٹھے کرنا اور پھر ان کو سلیقے کے ساتھ پیش کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ وہ بہت بڑا آدمی ہے امرت، بہت بڑا آدمی ہے اور دیکھو اس نے مجھے خط کیسا لکھا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر جوگندر سنگھ نے اپنی بیوی کو وہ خط پڑھ کر سنایا جو ہرندر ناتھ ترپاٹھی نے اس کو اپنے گاؤں سے ڈاک خانے کے پتے سے بھیجا تھا۔ اس خط میں ہرندرناتھ ترپاٹھی نے بڑی میٹھی زبان میں جوگندر سنگھ کے افسانوں کی تعریف کی تھی اور لکھا تھا کہ آپ ہندوستان کے ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔ جب یہ فقرہ جوگندر سنگھ نے پڑھا توبول اٹھا،’’لو دیکھو ترپاٹھی صاحب بھی لکھتے ہیں کہ میں ترقی پسند ہوں۔‘‘
جوگندر سنگھ نے پورا خط سنانے کے بعد ایک دو سیکنڈ اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور اثر معلوم کرنے کے لیے پوچھا، ’’کیوں۔۔۔؟‘‘
امرت کور اپنے خاوند کی تیز نگاہی کے باعث کچھ جھینپ سی گئی اور مسکرا کر کہنے لگی،’’مجھے کیا معلوم۔۔۔ بڑے آدمیوں کی باتیں بڑے ہی سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
جوگندر سنگھ نے اپنی بیوی کی اس ادا پرغور نہ کیا۔ وہ دراصل ہرندر ناتھ ترپاٹھی کو اپنے یہاں بلانے اور اسے کچھ دیر ٹھہرانے کی بابت سوچ رہا تھا، ’’امرت، میں کہتا ہوں ترپاٹھی صاحب کو دعوت دےدی جائے، کیا خیال ہے تمہارا۔۔۔ لیکن میں یہ سوچتا ہوں کیا پتہ ہے وہ انکار کردے۔۔۔ بہت بڑا آدمی ہے، ممکن ہے وہ ہماری اس دعوت کو خوشامد سمجھے۔‘‘
ایسے موقعوں پروہ بیوی کو اپنے ساتھ شامل کرلیا کرتا تھا تاکہ دعوت کا بوجھ دو آدمیوں میں بٹ جائے۔ چنانچہ جب اس نے ’’ہماری‘‘ کہا تو امرت کور نے جو اپنے خاوند جوگندرسنگھ کی طرح بے حد سادہ لوح تھی، ہرندر ناتھ ترپاٹھی سے دلچسپی لینا شروع کردی۔ حالانکہ اس کا نام ہی اس کے لیے ناقابل فہم تھا اور یہ بات بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ ایک آوارہ گرد گیت جمع کرکرکے کیسے بہت بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ جب اس سے یہ کہا گیا تھا کہ ہرندر ناتھ ترپاٹھی گیت جمع کرتا ہے تو اسے اپنے خاوند کی ایک سنائی ہوئی بات یاد آگئی تھی کہ ولایت میں کئی لوگ تیتریاں پکڑنے کا کام کرتے ہیں اور یوں کافی روپیہ کماتے ہیں۔ چنانچہ اس نے خیال کیا تھا کہ شاید ترپاٹھی صاحب نے گیت جمع کرنے کا کام ولایت کے کسی آدمی سے سیکھا ہوگا۔
جوگندر سنگھ نے پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا،’’ممکن ہے وہ ہماری اس دعوت کو خوشامد سمجھے۔‘‘
’’اس میں خوشامد کی کیا بات ہے۔ اور بھی تو کئی بڑے آدمی آپ کے پاس آتے ہیں۔ آپ ان کو خط لکھ دیجیے، میرا خیال ہے وہ آپ کی دعوت ضرور قبول کرلیں گے اور پھر ان کو بھی تو آپ سے ملنے کا بہت شوق ہے۔۔۔ ہاں، یہ تو بتائیے کیا ان کی بیوی بچے ہیں؟‘‘
’’بیوی بچے؟‘‘ جوگندر سنگھ نے خط کا مضمون انگریزی زبان میں سوچتے ہوئے کہا،’’ہونگے۔۔۔ ضرور ہوں گے۔۔۔ ہاں ہیں، میں نے ان کے ایک مضمون میں پڑھا تھا، ان کی بیوی بھی ہے اور ایک بچی بھی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر جوگندرسنگھ اٹھا، خط کا مضمون اس کے دماغ میں مکمل ہوچکا تھا۔ دوسرے کمرے میں جا کر اس نے چھوٹے سائز کا پیڈ نکالا جس پر وہ خاص خاص آدمیوں کو خط لکھا کرتا تھا اورہرندر ناتھ ترپاٹھی کے نام اردومیں دعوت نامہ لکھا۔ یہ اس مضمون کا ترجمہ تھا جو اس نے اپنی بیوی سے گفتگو کرتے وقت سوچ لیا تھا۔
تیسرے روز ہرندرناتھ ترپاٹھی کا جواب آیا۔ جوگندر سنگھ نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ لفافہ کھولا۔ جب اس نے پڑھا کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی ہے تو اس کا دل اور بھی دھڑکنے لگا۔ اس کی بیوی امرت کور دھوپ میں اپنے چھوٹے بچے کے کیسوں میں دہی ڈال کر مل رہی تھی کہ جوگندر سنگھ لفافہ ہاتھ میں لے کر اس کے پاس پہنچا، ’’انھوں نے ہماری دعوت قبول کرلی، کہتے ہیں کہ وہ لاہور یوں بھی ایک ضروری کام سے آرہے تھے۔۔۔ اپنی تازہ کتاب چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔ اور ہاں، انھوں نے تم کو پرنام کہا ہے۔‘‘ امرت کور اس احساس سے بہت خو شی ہوئی کہ اتنے بڑے آدمی نے جس کا کام گیت اکٹھے کرنا ہے اس کو پرنام کہا ہے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کا بیاہ ایسے آدمی سے ہوا جس کو ہندوستان کا ہر بڑا آدمی جانتا ہے۔
سردیوں کا موسم تھا۔ نومبر کے پہلے دن تھے۔ جوگندر سنگھ صبح سات بجے بیدار ہوگیا اور دیر تک بستر میں آنکھیں کھولے پڑا رہا۔ اس کی بیوی امرت کور اور اس کا بچہ دونوں لحاف میں لیٹے پاس والی چارپائی پر پڑے تھے۔ جوگندر سنگھ نے سوچنا شروع کیا: ترپاٹھی صاحب سے مل کر اسے کتنی خوشی ہوگی اور خود ترپاٹھی صاحب کو بھی یقیناًاس سے مل کر بڑی مسرت حاصل ہوگی۔کیوں کہ وہ ہندوستان کا جواں افکار افسانہ نویس اور ترقی پسند ادیب ہے۔ ترپاٹھی صاحب سے وہ ہر موضوع پر گفتگو کرے گا۔ گیتوں پر، دیہاتی بولیوں پر، افسانوں پر اور تازہ جنگی حالات پر۔۔۔ وہ ان کو بتائے گا کہ دفتر کا ایک محنتی کلرک ہونے پربھی وہ کیسے اچھا افسانہ نگار بن گیا۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں کہ ڈاک خانے میں چٹھیوں کی دیکھ بھال کرنے والا انسان طبعاً آرٹسٹ ہو۔
جوگندر سنگھ کو اس بات پر بہت ناز تھا کہ ڈاک خانے میں مزدوروں کی طرح چھ سات گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی وہ اتنا وقت نکال لیتا ہے کہ ایک ماہانہ پرچہ مرتب کرتا ہے اور دو تین پرچوں کے لیے ہر مہینے ایک افسانہ بھی لکھتا ہے۔ دوستوں کو ہر ہفتے جو لمبے چوڑے خط لکھے جاتے تھے، ان کا ذکر الگ رہا۔
دیر تک وہ بستر پر لیٹا ہرندرناتھ ترپاٹھی سے اپنی پہلی ملاقات کی ذہنی تیاریاں کرتا رہا۔ جوگندر سنگھ نے اس کے افسانے اور مضمون پڑھے تھے اور اس کا فوٹو بھی دیکھا تھا اور کسی کے افسانے پڑھ اور فوٹو دیکھ کر وہ عام طور پر یہی محسوس کیا کرتا تھا کہ اس نے اس آدمی کو اچھی طرح جان لیا ہے۔ لیکن ہرندرناتھ ترپاٹھی کے معاملے میں اس کو اپنے اوپر اعتبار نہیں آتا تھا۔ کبھی اس کا دل کہتا تھا کہ ترپاٹھی اس کے لیے بالکل اجنبی ہے ۔اس کے افسانہ نگار دماغ میں بعض اوقات ترپاٹھی ایک ایسے آدمی کی صورت میں پیش ہوتا تھا جس نے کپڑوں کے بجائے اپنے جسم پر کاغذ لپیٹ رکھے ہوں۔ اور جب وہ کاغذوں کے متعلق سوچتا تو اسے انارکلی کی وہ دیوار یاد آجاتی تھی جس پر سنیما کے اشتہار اوپر تلے اتنی تعداد میں چپکے ہوئے تھے کہ ایک اور دیوار بن گئی تھی۔
جوگندر سنگھ بستر پر لیٹا دیر تک سوچتارہا کہ اگر وہ ایسا ہی آدمی نکل آیا تو اس کوسمجھنا بہت دشوار ہو جائے گا۔ مگر بعد میں جب اس کو اپنی ذہانت کا خیال آیا تو اس کی مشکلیں آسان ہوگئیں اور وہ اٹھ کر ہرندرناتھ ترپاٹھی کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔خط و کتابت کے ذریعے سے یہ طے ہوگیا تھا کہ ہرندرناتھ ترپاٹھی خود جو گندر سنگھ کے مکان پر چلا آئے گا۔ کیونکہ ترپاٹھی یہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ لاری سے سفر کرے گا یا ریلوے ٹرین سے۔ بہرحال یہ بات تو قطعی طور پر طے ہو گئی تھی کہ جوگندر سنگھ سوموار کو ڈاک خانے سے چھٹی لے کر سارا دن اپنے مہمان کا انتظار کرے گا۔
نہا دھو کر اور کپڑے بدل کر جوگندرسنگھ دیر تک باورچی خانےمیں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا رہا۔ دونوں نے چائے دیر سے پی، اس خیال سے کہ شاید ترپاٹھی آجائے۔ لیکن جب وہ نہ آیا تو انھوں نے کیک وغیرہ سنبھال کر الماری میں رکھ دیے اور خود خالی چائے پی کر مہمان کے انتظار میں بیٹھ گئے۔
جوگندرسنگھ باورچی خانے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر جب اس نے اپنی داڑھی کے بالوں میں لوہے کے چھوٹے چھوٹے کلپ اٹکانے شروع کیے کہ وہ نیچے کی طرف تہہ ہو جائیں تو باہر دروازہ پر دستک ہوئی۔ داڑھی کو ویسے ہی نامکمل حالت میں چھوڑ کر اس نے ڈیوڑھی کا دروازہ کھولا۔ جیسا کہ اس کو معلوم تھا سب سے پہلے اس کی نظر ہرندرناتھ ترپاٹھی کی سیاہ گھنی داڑھی پر پڑی جو اس کی داڑھی سے بیس گنا بڑی تھی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔
ہرندرناتھ کے ہونٹوں پرجو بڑی بڑی مونچھوں کے اندر چھپے ہوئے تھے، مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اس کی ایک آنکھ جو قدرے ٹیڑھی تھی زیادہ ٹیڑھی ہوگئی اور اس نے اپنی لمبی لمبی زلفوں کو ایک طرف جھٹک کر اپنا ہاتھ جو کسی کسان کا ہاتھ معلوم ہوتا تھا جوگندر سنگھ کی طرف بڑھا دیا۔جوگندر سنگھ نے جب اس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت محسوس کی اور اس کو ترپاٹھی کا وہ چرمی تھیلا نظر آیا جو حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح پھولا ہوا تھا تو وہ بہت متاثر ہوا۔ وہ صرف اس قدر کہہ سکا، ’’ترپاٹھی صاحب آپ سے مل کر مجھے بے حد ہوشی ہوئی ہے۔‘‘
ہرندرناتھ ترپاٹھی کو آئے اب پندرہ روز ہوچکے تھے۔ اس کی آمد کے دوسرے روز ہی اس کی بیوی اور بچی بھی آگئی تھیں۔ یہ دونوں ترپاٹھی کے ساتھ ہی گاؤں سے آئی تھیں مگر دو روز کے لیے مزنگ میں ایک دور کے رشتے دار کے ہاں ٹھہر گئی تھیں اور چونکہ ترپاٹھی نے اس رشتے دار کے پاس ان کا زیادہ دیر تک ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا تھا اس لیے اس نے ان کو اپنے پاس بلوالیا تھا۔
پہلے چار دن بڑی دلچسپ باتوں میں صرف ہوئے۔ ہرندرناتھ ترپاٹھی سے اپنے افسانوں کی تعریف سن کر جوگندر بہت خوش ہوتا رہا۔ اس نے ایک مکمل افسانہ جو کہ غیر مطبوعہ تھا ،ترپاٹھی کو سنایا اور داد حاصل کی۔ دو نامکمل افسانے بھی سنائے جن کے متعلق ترپاٹھی نے اچھی رائے کا اظہار کیا۔ ترقی پسند ادب پربھی بحثیں ہوتی رہیں۔ مختلف افسانہ نگاروں کی فنی کمزوریاں نکالی گئیں۔ نئی اور پرانی شاعری کا مقابلہ کیا گیا۔ غرضیکہ یہ چار دن بڑی اچھی طرح گزرے اور جوگندر سنگھ ،ترپاٹھی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ اس کی گفتگو کا انداز جس میں بیک وقت بچپنا اور بڑھاپا تھا جوگندر کو بہت پسند آیا۔ اس کی لمبی داڑھی جو اس کی اپنی داڑھی سے بیس گنا بڑی تھی اس کے خیالات پر چھا گئی اور اس کی کالی کالی زلفیں جن میں دیہاتی گیتوں کی سی روانی تھی ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہنے لگیں۔ ڈاک خانے میں چٹھیوں کی دیکھ بھال کرنے کے دوران میں بھی ترپاٹھی کی یہ زلفیں اسے نہ بھولتیں۔
چار دن میں ترپاٹھی نے جوگندر سنگھ کو موہ لیا۔ وہ اس کا گرویدہ ہوگیا۔ اس کی ٹیڑھی آنکھ میں بھی اس کوخوبصورتی نظر آنے لگی، بلکہ ایک بار تو اس نے سوچا، ’’اگر ان کی آنکھ میں ٹیڑھا پن نہ ہوتا تو چہرے پر یہ بزرگی کبھی پیدا نہ ہوتی۔‘‘ ترپاٹھی کے موٹے موٹے ہونٹ جب ترپاٹھی کی گھنی مونچھوں کے پیچھے ہلتے توجوگندر ایسا محسوس کرتا کہ جھاڑیوں میں پرندے بول رہے ہیں۔ ترپاٹھی ہولے ہولے بولتا تھا اور بولتے بولتے جب وہ اپنی لمبی داڑھی پرہاتھ پھیرتا تو جوگندر کے دل کو بہت راحت پہنچتی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے دل پر پیار سے ہاتھ پھیرا جارہا ہے۔
چار روز تک جوگندر ایسی فضا میں رہا جس کو اگر وہ اپنے کسی افسانے میں بھی بیان کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا۔ لیکن پانچویں روز ایکا ایکی ترپاٹھی نے اپنا چرمی تھیلا کھولا اور اس کو اپنے افسانے سنانے شروع کیے اور دس روز تک وہ متواتر اس کو اپنے افسانے سناتا رہا۔ اس دوران میں ترپاٹھی نے جوگندر کو کئی کتابیں سنا دیں۔
جوگندر سنگھ تنگ آگیا۔ اب اس کو افسانوں سے نفرت پیدا ہوگئی۔ ترپاٹھی کا چرمی تھیلا جس کا پیٹ بنیوں کی توند کی طرح پھولا ہوا تھا، اس کے لیے ایک مستقل عذاب بن گیا۔ ہر روز شام کو دفتر سے لوٹتے ہوئے اسے اس بات کا کھٹکا رہنے لگا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی ترپاٹھی سے ملاقات ہوگی۔ ادھر ادھر کی چند سرسری باتیں ہوں گی، وہ چرمی تھیلا کھولا جائے گا اور اس کو ایک یا دو طویل افسانے سنا دیے جائیں گے۔
جوگندر سنگھ ترقی پسند تھا۔ یہ ترقی پسندی اگر اس کے اندر نہ ہوتی تو وہ صاف لفظوں میں ترپاٹھی سے کہہ دیتا، ’’بس۔۔۔ بس۔۔۔ ترپاٹھی صاحب بس۔۔۔ بس اب مجھ میں آپ کے افسانے سننے کی طاقت نہیں رہی۔‘‘ مگر وہ سوچتا، ’’نہیں نہیں۔۔۔ میں ترقی پسند ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ دراصل یہ میری کمزوری ہے کہ اب ان کے افسانے مجھے اچھے نہیں لگتے۔ ان میں ضرور کوئی نہ کوئی خوبی ہوگی۔۔۔ اس لیے کہ ان کے پہلے افسانے مجھے خوبیوں سے بھرے نظر آتے تھے۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ متعصب ہوگیا ہوں۔‘‘
ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک جوگندر سنگھ کے ترقی پسند دماغ میں یہ کشمکش جاری رہی اور وہ سوچ سوچ کر اس حد تک پہنچ گیا جہاں سوچ بچار ہو ہی نہیں سکتا۔ طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے مگر وہ ان کی ٹھیک طور پر جانچ پڑتال نہ کرسکتا۔ اس کی ذہنی افراتفری آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اوروہ ایسا محسوس کرنے لگا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے جس میں بے شمار کھڑکیاں ہیں۔ اس مکان کے اندر وہ اکیلا ہے۔ آندھی آگئی ہے،کبھی اس کھڑکی کے پٹ بجتے ہیں، کبھی اس کھڑکی کے، اور اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اتنی کھڑکیوں کو ایک دم بند کیسے کرے۔
جب ترپاٹھی کو اس کے یہاں آئے بیس روز ہوگئے تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ ترپاٹھی اب شام کو نیا افسانہ لکھ کر جب اسے سناتا تو جوگندر کو ایسا محسوس ہوتا کہ بہت سی مکھیاں اس کے کانوں کے پاس بھنبھنا رہی ہیں۔ وہ کسی اور ہی سوچ میں غرق ہوتا۔
ایک روز ترپاٹھی نے جب اس کو اپنا تازہ افسانہ سنایا جس میں کسی عورت اور مرد کے جنسی تعلقات کا ذکر تھا تو یہ سوچ کر اس کے دل کو دھکا سا لگا کہ پورے اکیس دن اپنی بیوی کے پاس سونے کے بجائے وہ ایک لم ڈڑھیل کے ساتھ ایک ہی لحاف میں سوتا رہا ہے۔ اس احساس نے جوگندر کے دل و دماغ میں ایک لمحہ کے لیے انقلاب برپا کردیا، ’’یہ کیسا مہمان ہے کہ جونک کی طرح چمٹ کر ہی رہ گیا ہے۔ یہاں سے ہلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ میں ان کی بیوی صاحبہ کو تو بھول ہی گیا تھا اور ان کی بچی۔۔۔ سارا گھر اٹھ کر یہاں چلا آیا ہے۔ ذرّہ بھر خیال نہیں کہ ایک غریب آدمی کا کچومر نکل جائے گا۔۔۔ میں ڈاک خانے میں ملازم ہوں ،صرف پچاس روپے ماہوار کماتا ہوں، آخر کب تک ان کی خاطر تواضع کرتا رہوں گا اور پھر افسانے۔۔۔ اس کے افسانے جو کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتے۔ میں انسان ہوں۔ لوہے کا ٹرنک نہیں ہوں جو ہر روز اس کے افسانے سنتا رہوں۔۔۔ اور کس قدر غضب ہے کہ میں اپنی بیوی کے پاس تک نہیں گیا۔۔۔ سردیوں کی یہ راتیں ضائع ہورہی ہیں۔‘‘
اکیس دنوں کے بعد جوگندر، ترپاٹھی کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے لگا۔ اب اس کو ترپاٹھی کی ہر چیز معیوب نظر آنے لگی۔ اس کی ٹیڑھی آنکھ جس میں جوگندر پہلے خوبصورتی دیکھتا تھا اب صرف ایک ٹیڑھی آنکھ تھی۔ اس کی کالی زلفوں میں بھی اب جوگندر کو وہ ملائمی دکھائی نہیں دیتی تھی اور اس کی داڑھی دیکھ کر اب وہ سوچتا تھا کہ اتنی لمبی داڑھی رکھنا بہت بڑی حماقت ہے۔
جب ترپاٹھی کو اس کے یہاں آئے پچیس دن ہوگئے تو ایک عجیب و غریب کیفیت اس کے اوپر طاری ہوگئی۔ وہ اپنے آپ کو اجنبی سمجھنے لگا، اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کبھی جوگندر سنگھ کو جانتا تھا مگر اب نہیں جانتا۔ اپنی بیوی کے متعلق وہ سوچتا، ’’جب ترپاٹھی چلا جائے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا تو میری نئے سرے سے شادی ہوگی۔۔۔ میری وہ پرانی زندگی جس کو ٹاٹ کے طور پر یہ لوگ استعمال کر رہے ہیں پھر عود کر آئے گی۔۔۔ میں پھر اپنی بیوی کے ساتھ سو سکوں گا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
اس کے آگے جب وہ سوچتا تو جوگندر سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور اس کے حلق میں کوئی تلخ سی چیز پھنس جاتی۔ اس کا جی چاہتا کہ دوڑا دوڑا اندر جائے اور امرت کور کو جو کبھی اس کی بیوی ہوا کرتی تھی اپنے گلے سے لگالے اور رونا شروع کردے۔ مگر ایسا کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی کیونکہ وہ ترقی پسند افسانہ نگار تھا۔
کبھی کبھی جوگندر سنگھ کے دل میں یہ خیال دودھ کے ابال کی طرح اٹھتا کہ ترقی پسندی کا لحاف جو اس نے اوڑھ رکھا ہے اتار پھینکے اور چلانا شروع کر دے۔ ’’ترپاٹھی، ترقی پسندی کی ایسی تیسی۔ تم اور تمہارے اکٹھے کیے ہوئے گیت سب بکواس ہیں۔۔۔ مجھے اپنی بیوی چاہیے۔۔۔ تمہاری خواہشیں تو ساری گیتوں میں جذب ہو چکی ہیں مگر میں ابھی جوان ہوں۔۔۔ میری حالت پر رحم کرو۔۔۔ ذرا غور تو کرو میں جوایک منٹ اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا پچیس دنوں سے تمہارے ساتھ ایک ہی لحاف میں سو رہا ہوں۔۔۔ کیا یہ ظلم نہیں۔‘‘
جوگندر سنگھ بس گھول کے رہ جاتا۔ ترپاٹھی اس کی حالت سے بے خبر ہر روز شام کو اسے اپنا تازہ افسانہ سنا دیتا اور اس کے ساتھ لحاف میں سو جاتا۔ جب ایک مہینہ گزر گیا تو جوگندر سنگھ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ موقع پا کر غسل خانے میں وہ اپنی بیوی سے ملا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس ڈر کے مارے کہ ترپاٹھی کی بیوی نہ آجائے اس نے جلدی سے اس کا یوں بوسہ لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے اور کہا، ’’آج رات تم جاگتی رہنا۔ میں ترپاٹھی سے یہ کہہ کر باہر جارہا ہوں کہ رات کے ڈھائی بجے واپس آؤں گا۔ لیکن میں جلدی آجاؤں گا۔ بارہ بجے۔۔۔ پورے بارہ بجے، میں ہولے ہولے دستک دو ں گا ،تم چپکے سے دروازہ کھول دینا اور پھر ہم۔۔۔ ڈیوڑھی بالکل الگ تھلگ ہے۔ لیکن تم احتیاط کے طور پر وہ دروازہ جو غسل خانےکی طرف کھلتا ہے بند کردینا۔‘‘
بیوی کو اچھی طرح سمجھا کر وہ ترپاٹھی سے ملا اور اس سے رخصت لے کر چلا گیا۔ بارہ بجنے میں چار سرد گھنٹے باقی تھے جن میں سے دو جوگندر سنگھ نے اپنی سائیکل پر ادھر ادھر گھومنے میں کاٹے۔ اس کو سردی کی شدت کا بالکل احساس نہ ہوا اس لیے کہ بیوی سے ملنے کا خیال کافی گرم تھا۔دو گھنٹے سائیکل پر گھومنے کے بعد وہ اپنے مکان کے پاس میدان میں بیٹھ گیا اور محسوس کرنے لگا کہ وہ رومانی ہوگیا ہے۔ جب اس نے سرد رات کی دھندیالی خاموشی کا خیال کیا تو اسے یہ ایک جانی پہچانی چیز معلوم ہوئی۔ اوپر ٹھٹھرے ہوئے آسمان پر تارے چمک رہے تھے جیسے پانی کی موٹی موٹی بوندیں جم کر موتی بن گئی ہیں۔ کبھی کبھی ریلوے انجن کی چیخ خاموشی کو چھیڑ دیتی اور جوگندر سنگھ کا افسانہ نگاردماغ یہ سوچتا کہ خاموشی بہت بڑا برف کا ڈھیلا ہے اور سیٹی کی آواز میخ ہے جو اس کے سینے میں کھب گئی ہے۔
بہت دیر تک جوگندر ایک نئے قسم کے رومان کو اپنے دل و دماغ میں پھیلاتا رہا اور رات کی اندھیاری خوبصورتیوں کو گنتا رہا۔ ایکا ایکی ان خیالات سے چونک کر اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو بارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھے۔ اٹھ کر اس نے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر ہولے سے دستک دی۔ پانچ سیکنڈ گزر گئے، دروازہ نہ کھلا۔ ایک بار اس نے پھر دستک دی۔
دروازہ کھلا، جوگندر سنگھ نے ہولے سے کہا، ’’امرت۔۔۔‘‘ اور جب نظریں اٹھا کر اس نے دیکھا تو امرت کور کے بجائے ترپاٹھی کھڑا تھا۔ اندھیرے میں جوگندر سنگھ کو ایسا معلوم ہوا کہ ترپاٹھی کی داڑھی اتنی لمبی ہوگئی ہے کہ زمین کو چھو رہی ہے۔ اس کو پھر ترپاٹھی کی آواز سنائی، ’’تم جلدی آگئے۔۔۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔ میں نے ابھی ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے۔۔۔ آؤ سنو۔‘‘
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |