تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
by حیدر علی آتش

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا

رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل لالہ کو شرمایا تو ہوتا

چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا

کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے
زباں تک حال دل آیا تو ہوتا

سمجھتا یا نہ اے آتشؔ سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse