تری زلف زنار کا تار ہے
تری زلف زنار کا تار ہے
کہ جس تار میں دل گرفتار ہے
کرشمے کے لشکر میں وو شاہ حسن
صف خوب رویاں کا سردار ہے
تلطف سیں پوچھے گا کب درد دل
ستمگر ہے سرکش ہے عیار ہے
جسے دل خراشی نہیں عشق کی
طریق محبت میں بے کار ہے
سجن لطف کر نرگس باغ پر
تری چشم مے گوں کا بیمار ہے
شفا دے مجھے مرہم وصل سوں
جگر پر مرے ہجر کا وار ہے
شب ہجر میں گل بدن کے سراجؔ
نظر میں مری شمع جیوں خار ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |