تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے

تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے
by آغا حجو شرف

تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے
تڑپ کے بولا جدھر وہ نکلے شتاب اسی رہ گزر کو چلیے

نہ چاہئے کچھ عدم کو لے کر نکلیے ہستی سے جان دے کر
سفر جو لیجے رہ خدا میں لٹا کے زاد سفر کو چلیے

ازل سے اس کا ہی آسرا ہے جو دینے والا مرادوں کا ہے
برائے فی الفور امید دل کو جو چومنے اس کے در کو چلیے

ادھر تو تقدیر سو رہی ہے ادھر وہ نابود ہو رہی ہے
وصال کی شب کو رو جو چکیے تو رونے شمع سحر کو چلیے

جو ہاتھ اک پھول کو لگائیں یقیں ہے کانٹوں میں کھینچے جائیں
ہمارے حق میں وہ ہووے حنظل جو نوش کرنے ثمر کو چلیے

عجیب مشکل ہے آہ اے دل کٹھن ہے بیم و رجا کی منزل
قدم قدم پر یہ سوچتے ہیں کدھر نہ چلیے کدھر کو چلیے

تری جدائی میں جان عالم کیا ہے دونوں کو غم نے بے دم
بنائیے جا کے دل کی تربت کہ دفن کرنے جگر کو چلیے

ہوا ہے وہ شوق دید بازی کہ سمجھیں اس کو بھی سرفرازی
بلائیں آنکھیں وہ پھوڑنے کو تو نذر کرنے نظر کو چلیے

وصال کی شب گزر گئی ہے جو آرزو تھی وہ مر گئی ہے
ہمیں تو ہچکی لگی ہوئی ہے وہ فکر میں ہیں کہ گھر کو چلیے

یہ قاف سے قاف تک ہے شہرت کریں گے وہ امتحان وحشت
جنوں کا عالم یہ کہہ رہا ہے یہیں سے ٹکراتے سر کو چلیے

جو صبح پیری ہوئی ہویدا صدا عدم سے ہوئی یہ پیدا
نماز پڑھ کے نہ اب ٹھہریے سویرے کسیے کمر کو چلیے

لٹا ہے گلشن میں آشیانہ کہیں ہمارا نہیں ٹھکانا
قفس سے چھٹ کر بھڑک رہے ہیں کہ تنکے چننے کدھر کو چلیے

کمی نہ درد جگر میں ہوگی یہ ہم سے ایسی نے گفتگو کی
دوا کو پھر ڈھونڈئیے گا پہلے تلاش کرنے اثر کو چلیے

ہمیشہ ہر سانس نے ہماری شب جدائی میں آرزو کی
کسی طرح سے ترے چمن میں نسیم ہو کر سحر کو چلیے

چراغ بزم خدا ہوا ہے خدا نے محبوب اسے کہا ہے
یہ شام سے لو لگی ہے دل کو کہ دیکھنے اس بشر کو چلیے

ہمارا آنسو وہ بے بہا ہے نگاہ حسرت میں جچ رہا ہے
منگا کے اب اس پہ چورہے میں نثار کرنے گہر کو چلیے

سوئے فلک کیجے روئے تاباں کہ چودھویں شب پہ ہے یہ نازاں
دکھا کے حسن شباب اپنا چکور کرنے قمر کو چلیے

کسی طرح سے نہ ہونے پائے ہمارے نالوں کا فاش پردہ
اگرچہ شور فغاں کا اپنے شریک کرنے گجر کو چلیے

شرفؔ جو ہم ان پہ جان دیں گے خبر ہماری لحد میں لیں گے
ہلا کے شانہ جلا کے ہم کو کہیں گے اٹھیے بھی گھر کو چلیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse