ترے لب بن ہے دل میں شعلہ زن مل جس کو کہتے ہیں
ترے لب بن ہے دل میں شعلہ زن مل جس کو کہتے ہیں
نشے کی موت کی ہچکی ہے قلقل جس کو کہتے ہیں
جو پوچھے اتحاد حسن و عشق اس کو نظر آوے
کہ نکلا بیضۂ غنچہ سے بلبل جس کو کہتے ہیں
اے مالی خارج آہنگی نہ کر ساز محبت میں
دل بلبل ہے ٹوٹا خوں ہوا گل جس کو کہتے ہیں
گزرنے کا سبب ہے زندگی کے آب سے پیری
قدم خم ہے محیط عمر کا پل جس کو کہتے ہیں
بجا ہوتے ہیں عزلتؔ دل کباب ان عشق بازوں کے
دھواں ہے حسن کی آتش کا کاکل جس کو کہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |