ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
وہ خوش ہے درد میں اس کو دوا سے کیا مطلب
فقط جو ذات کے ہیں دل سے چاہنے والے
انہیں کرشمہ و ناز و ادا سے کیا مطلب
نہال تازہ رہیں نامیہ کے منت کش
درخت خشک کو نشوونما سے کیا مطلب
مراد و مقصد و مطلب ہیں سب ہوس کے ساتھ
ہوس ہی مر گئی پھر مدعا سے کیا مطلب
مجھے وہ پوچھے تو اس کا ہی لطف ہے ورنہ
وہ بادشاہ ہے اسے مجھ گدا سے کیا مطلب
جو اپنے یار کے جور و جفا میں ہیں مسرور
انہیں پھر اور کے مہر و وفا سے کیا مطلب
رضائے دوست جنہیں چاہئے بہ ہر صورت
نظیرؔ پھر انہیں اپنی رضا سے کیا مطلب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |