تصویر خیالی

تصویر خیالی
by عظیم الدین احمد
323252تصویر خیالیعظیم الدین احمد

جب اندھیرا ہوا ہر سو ہوئی خلقت خاموش
جب تعقل سے گئی چھوٹ حکومت کی عناں
مٹ چلا تھا ترے ارمان کا جب جوش و خروش
صبر کا یاس نے جب آن کے پکڑا داماں

غم کے باعث ہوا جب مثل شب تار دماغ
دل میں اور عقل میں برپا ہوئی جنگ و تکرار
لہریں لینے لگا جس وقت تمنا کا چراغ
یاس کا دیو جب آ کر ہوا سینے پہ سوار

جیب ہستی کے اڑا چاہتے ہی تھے پرزے
اس گھڑی قلب کے اندر ہوئی تو جلوہ نما
ایسی چمکی تری تصویر خیالی جیسے
آسماں پر شب تاریک میں تنہا تارا

اے منور کن تاریکیٔ چشم عاشق
اے مداوا کن آلام دل ہجر نصیب
اے بہ یک شعبدہ زائل کن خشم عاشق
اے بظاہر تو بہت دور مگر دل سے قریب

مہر و مہ سے ہے مبارک کہیں تیری تصویر
چھید سکتیں نہیں بدلی کو شعاعیں ان کی
ایسی ظلمت کو مٹا دیتی ہے تیری تنویر
جو مٹائے نہ مٹے روشنی ہو کوئی سی

آئے طوفان گرے برق کہ بادل برسے
تیری الفت کا شجر ٹل نہیں سکتا ہے کبھی
زلزلہ آئے زمیں کو کہ فلک ٹوٹ پڑے
پر یہ ممکن نہیں ہو تیری محبت میں کمی

ہاں مگر سن لے تو اے حسن کی مے سے سرشار
خار خار الم ہجر سے ہوں سخت حزیں
یاں یہ سن لے مرے سرمست ادا خوش گفتار
گھلتے گھلتے ترے غم میں ہوں میں اب مرگ قریں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.