تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
معاملہ ابھی مطلق وہ رو بہ راہ نہیں
غلط ہے آہ کہ ہے دل کو دل سے راہ نہیں
کہ تیری چاہ مجھے تجھ کو میری چاہ نہیں
غلام ہم تو ہیں ایسے مزاج والوں کے
کسی کے ساتھ کسی ڈھب کی جن کو راہ نہیں
ہماری چوری جو ثابت ہوئی دلیل بھی کچھ
مقر نہیں کوئی شاہد نہیں گواہ نہیں
تواضع آپ کی ہم کیا کریں بھلا صاحب
بقول شخصے اس اپنے جگر میں آہ نہیں
رکھائیاں جو یہی ہیں تو اس طرح اپنا
نہیں نہیں نہیں ہرگز نہیں نباہ نہیں
حرم سے دیر میں یاں آب و دانہ لے آیا
بہ رب کعبہ مرا اس میں کچھ گناہ نہیں
نہ کچھ جہت نہ سبب قاہ قاہ ہنستے ہو
تمہاری خوش مجھے آتی یہ قاہ قاہ نہیں
کہوں بقید قسم لاالہ الا اللہ
کہ تاب ہجر بس اب مجھ میں اے الٰہ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |