تقدیر شمع جلوۂ جانانہ بن گیا

تقدیر شمع جلوۂ جانانہ بن گیا
by کیفی چریاکوٹی

تقدیر شمع جلوۂ جانانہ بن گیا
شعلہ اٹھا جو اس سے تو پردا نہ بن گیا

جو حال دل تھا کیف میں تاثیر درد تھا
وہ کہتے کہتے شوق کا افسانہ بن گیا

جنت کی آرزو سے ہے جنت کا کل وجود
ویرانہ کہہ دیا جسے ویرانہ بن گیا

یک قطرہ دل تھا مست کا پیمانۂ نصیب
ساقی نے کی نگاہ تو مے خانہ بن گیا

موقع شناس حسن محبت کے باب میں
اپنا تھا اور حشر میں بیگانہ بن گیا

اس کی طلب میں جب نہ رہا اس کا کچھ لحاظ
انداز بے قرار گدایانہ بن گیا

یوں اپنے در سے ٹال دیا اس کے ناز نے
انداز لطف خاص کریمانہ بن گیا

کیفیؔ حرم کے در پہ تھا جو کچھ وہ فیض تھا
ہاں بت کدے میں سجدۂ شکرانہ بن گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse