تقریر صدارت اردو کانفرنس، ناگپور

تقریر صدارت اردو کانفرنس، ناگپور
by مولوی عبد الحق
319574تقریر صدارت اردو کانفرنس، ناگپورمولوی عبد الحق

‏(مولانا ڈاکٹر عبد الحق صاحب کا خطبۂ صدارت ۲۳‏‎/‎اکتوبر ۱۹۳۸ء)

‏اے صاحبو! کسی حکیم کا قول ہے کہ جس چیز کو ہم ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں، اسے کبھی نہیں دیکھتے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی قدر بھی نہیں ‏کرتے۔ یہی حال زبان کا ہے۔ ہم صبح سے شام تک اسے بولتے اور اس میں بات چیت کرتے رہتے ہیں لیکن ہم میں سے کتے ہیں جو کبھی اس ‏پر غور کرتے ہوں کہ یہ کیا چیز ہے اور اس میں کیسے کیسے گن بھرے ہوئے ہیں۔‏حضرات اسے معمولی چیز نہ سمجھیے۔ یہ ایک زبردست قوت ہے۔ اس کی پشت پر ایک نہایت مستحکم فصیل اور قلعہ ہے۔ وہ مستحکم فصیل اور قلعہ ‏تہذیب و تمدن ہیں، جن پر ہماری معاشرت اور ہماری سیاست، ہمارے مذہب اور ہماری ترقی کا دارومدار ہے۔ اگر ہم ابتدا سے اب تک زبان ‏کے ارتقا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انسانی ترقی کا راز بہت کچھ زبان میں پنہاں ہے۔ علم بڑی قوت ہے لیکن اس قوت کا سہارا زبان پر ہے۔ ‏یہ تو ہواعام زبان کاحال لیکن ہماری اردو زبان کی شان سب سے نرالی ہے۔ یوں تو ہندستان میں بیسیوں اور سینکڑوں زبانیں ہیں لیکن ‏جو امتیازی خصوصیت اسے حاصل ہے، وہ یہاں کی کسی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ یہ سنسکرت کی طرح باہر سے نہیں آئی۔ یہ بنگالی، مرہٹی، ‏اڑیہ، ملیالم، تلنگی، تامل کی طرح کسی خاص فرقے یا کسی خاص علاقے کی زبان نہیں بلکہ یہ سب کی زبان ہے اور سارے ملک کی زبان ہے ‏اور اسی لیے ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر ہندستان کی کوئی زبان ملک کی عام مشترکہ زبان ہو سکتی ہے تو یہی زبان ہو سکتی ہے۔ ‏یہ کیوں؟ اس لیے کہ یہ نہ باہر سے آئی نہ پہلے سے موجود تھی نہ کسی نے اسے بنایا بلکہ انسانی ضروریات اور زمانے کے اقتضانے اسے بنایا اور ‏قانون قدرت کی بدولت جو اٹل ہے، یہ بڑھی، پھیلی اور پھلی پھولی۔ مسلمان جب اس ملک میں آئے تو یہاں نہ تو ایک حکومت تھی اور نہ ‏ایک زبان۔ ہر علاقے کا الگ راج تھا اور ہر علاقے کی الگ زبان اور چونکہ آمدورفت کے وسائل مہیانہ تھے، اس لیے نہ ایک حکومت ہونے ‏پائی اور نہ کسی ایک زبان کو ایسا فروغ ہوا کہ وہ سارے ملک کی یا ملک کے اکثر حصے کی زبان ہو جاتی۔ مسلمانوں کی بدولت رفتہ رفتہ حکومت ‏بھی ایک ہو گئی اور زبان بھی خود بخود ایک بن گئی۔ ‏اردو زبان کی پیدائش ہندستان کی تاریخ کا عجیب وغریب واقعہ ہے، جس پر مؤرخین نے بہت کم توجہ کی ہے۔ مسلمان جب یہاں آکر بس گئے ‏اور انہیں اپنے وطن سے کوئی تعلق نہ رہاتو فطرتی طور پر ان کا میل جول ملک کے اصل باشندوں سے بڑھنا شروع ہوا۔ میل جول کا سب سے ‏بڑا ذریعہ زبان ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھیں تو آپس میں انس اور الفت بھی نہیں ہو سکتی اور نہ ہمارے تعلقات میں کوئی ‏لطف پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کوئی کاروبار کر سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی زبان میں ہندی لفظ داخل کرنے شروع کیے اور ہندوؤں ‏نے اپنی زبان میں فارسی لفظ بولنے شروع کیے۔ اس زمانے میں دفتر فارسی مںز تھے۔ دربار، سرکار امراکی زبان فارسی تھی۔ مکتبوں اور ‏مدرسوں میں فارسی پڑھائی جاتی تھی اور ہندو مسلمان دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے اور ایک ہی مدرسے میں ساتھ ساتھ پڑھتے۔ ‏‏ اکبر کے زمانے تک سلطنت کا حساب کتاب ہندی میں رکھا جاتا تھا لیکن محکمۂ حساب کے افسر اعلیٰ راجہ ٹوڈرمل نے احکام جاری کیے کہ آئندہ ‏سے تمام حساب کتاب فارسی میں رکھا جائے۔ ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ فارسی ہندوؤں کی بول چال تحریر تقریر میں ایسی رچ گئی کہ ‏انہوں نے دانستہ ونادانستہ فارسی کے ہزارہا لفظ بلاتکلف اپنی زبان میں داخل کر لیے۔ یہ جو ہمیں الزام دیا جاتا ہے کہ ہم نے ہندستانی زبان ‏میں بہت سے عربی وفارسی الفاظ بھر دیے ہیں، یہ بالکل غلط اور بہتان ہے۔ عربی فارسی کے لفظوں کے داخل کرنے والے ہندو ہیں نہ کہ ‏مسلمان۔ اس کی ایک صاف مثال میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ‏‏ جب انگریزوں کا اس ملک پر تسلط ہوا اور ہمارے نوجوانوں نے انگریزی پڑھنی شروع کی، انگریزی دفتروں میں ملازمت کی اور انگریزی بولنے ‏اور لکھنے کی مشق بہم پہنچائی تو جب وہ اپنی زبان بولتے تو آدھی انگریزی اور آدھی دیسی زبان ہوتی تھی۔ لیکن برخلاف اس کے جب کوئی انگریز ‏اردو یادیسی زبان بولتا تو یہ کوشش کرتا کہ اس کی گفتگو میں کوئی انگریزی لفظ نہ آئے۔ اب جو اردو میں سینکڑوں انگریزی لفظ داخل ہو گئے ‏ہیں تو کیا یہ انگریز نے داخل کیے ہیں؟ یہ سب ہم نے اپنی خوشی سے داخل کیے ہیں۔ یہی حال اس وقت ہندوؤں کا تھا کہ وہ خوشی خوشی بلکہ ‏ازراہ فخر فارسی لفظ ہندی میں ملاتے چلے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو زبان پر ایک دور ایسا آیا کہ ایک خطے کے اہل زبان نے عربی فارسی ‏لفظ دھڑا دھڑ داخل کرنے شروع کیے لیکن وہ دور بہت تھوڑے زمانے تک رہا اور بہت جلد پھر سادہ اردو کارواج شروع ہو گیا۔ ‏‏ اس معاملے میں سب سے بڑا اثر سرسید احمد خاں کا پڑا۔ اس وقت سے ہم برابر سادہ اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد اور ‏مولانا سلیمان ندوی جیسے عالم سلیس لکھنے لگے ہیں تو دوسروں کا کیا ذکر۔ لیکن برخلاف اس کے ہمارے ہندو بھائی اپنی ہندی میں بلا لحاظ موقع و ‏محل سنسکرت کے غیرمانوس، ثقیل اور غلیظ لفظ داخل کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی نئی زبان بنا رہے ہیں جوکسی انسان کی زبان نہیں ‏اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ہندستانی کہتے ہیں اور بقول سرتیج بہادر سپرو کے یہ لوگ ہندستانی کی آڑ میں شکار کھیل رہے ہیں اور اس زبان ‏کو مٹانا چاہتے ہیں جو دونوں کے اتحاد اور یکجہتی سے بنی تھی اور دونوں کی زبانوں اور دونوں کی تہذیبوں کا بہترین خلاصہ ہے۔ ‏گویا اپنے اسلاف کی محنت اور یادگار کو مٹاکر اتفاق کی بجائے نفاق پیدا کر رہے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ عربی فارسی الفاظ ہی نکال کر سنسکرت ‏نہیں داخل کر رہے ہیں بلکہ ہندی کے معمولی الفاظ، جنہںہ ادنیٰ اعلیٰ سب بولتے ہیں وہ بھی خارج کیے جارہے ہیں اور ان کی جگہ سنسکرت کے ‏موٹے موٹے لفظ بھرے جا رہے ہیں۔ ‏ابھی چند روز ہوئے، مجھے معلوم ہوا کہ یوپی کانگریس حکومت نے ایک سرکلر شائع کیا ہے، جس میں حکم دیا ہے کہ آئندہ سے مدعی کی جگہ ‏‏’’جھگڑو‘‘ اور مرافع یعنی اپیلانٹ کی جگہ ’’پلٹو‘‘ لکھا جائے۔ کیا یہی جناتی زبان ہے جسے وہ اردو جیسی مقبول خاص وعام زبان کی قائم مقام بنانا ‏چاہتے ہیں۔ یہ اردو کی مخالفت نہیں بلکہ اتحاد و اتفاق کی مخالفت اور سراسر ملک کی دشمنی ہے۔ خیر سے اس پر دعویٰ قومیت کا بھی ہے! آپ ‏کے صوبے میں تو اس سے بھی زیادہ غضب ہو رہا ہے یعنی یہاں اعلام یعنی اسمائے خاص کو بھی بدلا جا رہا ہے۔ مثلاً ہندستانی علاقے ‏کو مہاکشل، برارکوودھروا، ناگپور کوناگیشور، حکومت کو رام راج اور ایک اچھے خاصے بھلے آدمی کو مہاتما بنا دیا گیا ہے۔ کیا اسی کے معنی قومیت ‏کے ہیں؟ قومیت کا دعویٰ اور اس پر یہ لچھن! افسوس صد افسوس!‏آپ کے صوبے میں قومیت کے مبارک نام سے ایک اور شگوفہ چھوڑا گیا ہے۔ یہ وہ مشہور تعلیمی اسکیم ہے جس کا غلغلہ سارے ہندستان میں ‏مچا ہوا ہے۔ ودیا مندر اسکیم پر اس قدر بحث ہو چکی ہے اور اس پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ اس وقت اس کے متعلق کچھ کہنا تحصیل حاصل ‏ہے۔ لیکن باوجود اس کے بہت کم لوگ ہیں جو اس کے حسب ونسب سے واقف ہیں۔ بظاہر آنریبل مسٹر شکلا کو اس کی ایجاد کا فخر ہے جس پر ‏یہ مثل صادق آتی ہے کہ خشکہ باگندہ بروزہ اگرچہ گندہ مگر ایجاد بندہ۔ لیکن یہ حقیقت نہیں۔ اگر چہ یہ عام طور پر واردھا اسکیم کا بچہ کہلاتا ہے ‏لیکن میں اپنے ذاتی علم کی بناپر یہ کہتا ہوں کہ یہ نومولود اپنی والدہ ماجدہ سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ اس کے حقیقی والد سیاسی مذہبی لیڈر اور ‏ہمارے قدیم دوست پنڈت مدن موہن مالویہ اور مجازی والد ان کے شاگرد رشید آنریبل مسٹر شکلا ہیں۔ یہ اسکیم بہت سوچ سمجھ کر بنائی گئی ‏ہے اور اس کا جو منشا ہے وہ ظاہر ہے یعنی ہماری تعلیم، ہماری تہذیب، ہمارے تمدن اور خاص کر ہماری زبان کا مٹانا۔ اس پر دعویٰ یہ ہے کہ ہم ‏اقلیتوں کی زبان اور کلچر کے محافظ ہیں۔ ‏یہ اپنے مدرسے کو ودیا مندر کہیں، اپنی حکومت کو رام راج کا نام دیں، معمولی اور مروجہ ناموں کو قدیم سنسکرت ناموں سے بدل دیں تو ان ‏کی قوم پرستی میں کوئی فرق نہ آئے اور اگر ہم کوئی سیدھی سی بات بھی کہیں تو فرقہ پرست اور ملک کے دشمن ٹھہریں۔ گویا اس کے یہ معنی ‏ہوئے کہ اکثریت جو کہے وہ تو قوم پرستی ہے اور اقلیت جو کہے وہ فرقہ پرستی ہے۔ اگر یہی قومیت ہے تو اس قومیت کو ہمارا دور ہی سے سلام ‏ہے۔ یہ حضرات قومیت، جمہوریت، اکثریت اور اقلیت کے لفظوں سے کھیل رہے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کھیل بہت ‏خطرناک ہیں۔ ‏ڈاکٹر ذاکر حسین خاں صاحب نے رام راج کے بانی گاندھی جی کو میری کھلی چٹھی کی طرف بڑی التجا کے ساتھ توجہ دلائی اور بہت معقول اور ‏اچھا خط لکھا۔ لیکن وہ اس معاملے کو ایسی خوش اسلوبی سے ٹال گئے کہ مجھے بھی تعریف کرتے ہی بنی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالحق ‏کا خط نہیں پڑھا، تم مجھ سے بہت زیادہ توقع رکھتے ہو۔ میں نے مسٹر شکلا کو لکھا ہے میری بڑی تمنا ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ‏ہو جاؤں تو لوگ مجھے صرف اس بات سے یاد رکھیں کہ میں نے اپنی ساری عمر اور محنت ہندومسلمانوں کے ملانے میں صرف کردی۔ سبحان ‏اللہ! کیا جواب ہے! خیر اور کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے ہم تو ضرور یاد رکھیں گے۔ مشکل تو یہ آ پڑی ہے کہ گاندھی نہ لڑنے دیتے ہیں نہ ملنے دیتے ‏ہیں۔ ‏حضرات! ہندی اردو کافساد کئی بار اٹھا اور بیٹھ بیٹھ گیا۔ اگر چہ اس کے اٹھانے والے بڑے بڑے مہاپرش نہ تھے لیکن اس کو اصلی قوت اور ‏دائمی استقلال اس وقت حاصل ہوا ہے جب ملک اور قوم کے سچے بہی خواہ گاندھی جی نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ اس بس 1بھرے شہر میں بھارتیہ ‏ساہتیہ پرشد کے اجلاس کے موقع پر گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں سے بڑا معرکہ ہوا۔ وہ ہندی کے حق میں تھے اور میں ہندستانی کی حمایت ‏میں۔ میں نے بہت کہا کہ آپ ہندستانی فرمائیے مںی آپ کے ساتھ ہوں۔ میں نے کہا کہ نیشنل کانگریس کا رزولیوشن ہے کہ ملک کی زبان ‏ہندستانی ہوگی۔ فرمانے لگے کہ وہ رزولیوشن بھی تو میں نے ہی بنایا تھا۔ ‏اس جلسے میں انڈین نیشنل کانگریس کے تین جیتے جاگتے پرسیڈنٹ موجود تھے جو بت بنے بیٹھے تھے۔ ایک کے بھی منہ سے نہ پھوٹا اور کسی ‏نے میری کیا کانگریس کے رزولیوشن کی بھی تائید نہ کی۔ آخر میں حضرت مہاتما نے فرمایا کہ میں ہندی نہیں چھوڑ سکتا تو میں نے کہا کہ پھر ہم ‏اردو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہم ہندی اتھوا ہندستانی کے دھوکے میں نہیں آ سکتے، ہم لفظوں کو نہیں، عمل دیکھنا چاہتے ہیں اور عمل جیسا کچھ ‏ہو رہا ہے وہ ظاہر ہے۔ وہ عمل جراحی ہے جس میں ہماری زبان ہی نہیں ہماری تہذیب کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ ‏حضرات! ہم اردو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ ہمارے اسلاف (ہندو مسلمان دونوں کے اسلاف) کی یکجہتی اور اتحاد کی سب سے اہم، سب سے ‏مبارک اور سب سے عظیم الشان یادگار ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس کے بنانے اور سنوارنے میں محنتیں اور مشقتیں جھیلیں اور قربانیاں ‏کی ہیں۔ اس کے ایک ایک حرف میں ان کا خون جھلکتا نظر آتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ہماری تہذیب، ہماری تاریخ، ہمارے تمدن پر گواہی ‏دے رہا ہے۔ وہ ناخلفی کریں تو کریں ہم ناخلف نہیں ہو سکتے۔ ہم اسے ہرگز نہںہ چھوڑ سکتے کیونکہ یہی ایک ایسی زبان ہے جس نے ہم سب ‏کو ایک کر دیا تھا اور یہی پھر ساری قوموں کو ایک کر سکتی ہے۔ اس کو چھوڑنا اپنی تمام عزیز یادگاروں اور عزیز چیزوں کو خیر باد کہنا اور اپنی ‏ہستی کو فنا کر دینا ہے۔ ‏ابھی حال میں آپ کی حکومت کے ایک وزیر باتدبیر نے اسمبلی کے بھر ے اجلاس میں فرمایا تھا کہ مسلمان ایک حقیر اقلیت ہیں اور اس پر وہ ‏ہمارے سامنے نامعقول اور بھاری بھر کم مطالبات پیش کرتے ہیں۔ یہ شخص اپنی اکثریت پر نازاں اور حکومت کے نشے میں مخمور تھا، ورنہ ‏ایسی نامعقول بات نہ کہتا لیکن اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں ہمارے سامنے فرمان خداہے۔ (کم من فئۃ قلیلۃ ‏غلبت فئۃ کثیرۃ) یعنی اکثر ایسا ہوا ہے (اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے) کہ اقلیتوں نے اکثریتوں کو نیچا دکھایا ہے۔ اصل چیز اقلیت ‏یا اکثریت نہیں بلکہ ہمت و جواں مردی اور ایثار وقربانی ہے۔ اگر ہم میں یہ جوہر ہیں تو ہم اکثریت میں ہیں ورنہ ہر حال میں ہم اقلیت میں ‏ہیں زمانہ اس کا فیصلہ بہت جلد کر دےگا۔ ‏حضرات! آپ نے جس استقلال اور ہمت وجواں مردی سے اپنی زبان کی حمایت کی ہے، اس کی داد میں کیا دوں گا سارا ہندستان دےگا۔ ‏دوسرے باتیں کرتے ہیں آپ نے کر دکھایا، دوسرے تقریریں کرتے ہیں اور آپ نے عمل کر کے بتایا۔ آپ کا یہ مسئلہ صرف سی پی کا مسئلہ ‏نہیں رہا بلکہ سارے ہندستان کا مسئلہ ہو گیا ہے اور آپ کی مثال سارے ہندستان کے مسلمانوں کے لیے نظیر ہوگی۔ یہ آپ کی وقت شناسی اور ‏مصلحت اندیشی کی دلیل ہے کہ آپ نے ایےی وقت اردو کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔ دنیا میں قابل اور کامیاب وہی ہوئے ہیں جو وقت ‏کو پہنچانتے اور اس کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ‏‏یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ وہ مسئلہ جو سارے ہندستان کا مسئلہ ہے اور وہ زبان جس کا جنم بھوم شمالی ہند ہے اس کا فیصلہ سی۔ پی کی سرزمین ‏مںپ ہو رہا ہے۔ سی۔ پی اکثر اعتبارات سے سیاسی، لسانی، تعلیمی، معاشیاتی مسائل کا مرکز ہو گیا ہے۔ اور یہاں سے چند میل کے فاصلے پر ‏براعظم ہند کے نہایت سنجیدہ اور نازک مسائل طے ہوتے ہیں اور انشاء اللہ یہیں ہمارے لسانی اور تعلیمی مسائل بھی (علی الرغم شکلا) طے ‏پائیں گے اور ہم طے کر کے رہیں گے اور جب تک انصاف اور عزت کے ساتھ طے نہ ہوں گے، ہم برابر جد وجہد کرتے رہیں گے اور لڑتے ‏رہیں گے۔دست از طلب ندارم تاکام من برآیدیاجاں رسد بہ شکلا یا جاں زتن برآید

حاشیہ

(۱) ناگپور کی طرف اشارہ ہے۔ ‏


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.