تقی کاتب (1950)
by سعادت حسن منٹو
325210تقی کاتب1950سعادت حسن منٹو

ولی محمد، جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ لکھنو اور دلی کے جاہل اور خود سرکاتبوں سے میرا جی جلا ہوا تھا۔ ایک تھا، اس کو جاو بے جا پیش ڈالنے کی بری عادت تھی۔ موت کو مُوت اور سوت کو سُوت بنا دیتا تھا۔ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا۔ اس کو اپنے صاحب زبان ہونے کا بہت زعم تھا۔ میں نے جب بھی اس کو پیش کے معاملہ میں ٹوکا اس نے اپنی داڑھی کو تاؤ دے کرکہا،’’میں اہلِ زبان ہوں صاحب۔۔۔۔ اس کے تیس سپاروں کا حافظ ہوں۔ اعراب کے معاملہ میں آپ مجھ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘

میں نے اسے اور کچھ نہ کہا اور رخصت کردیا۔

اس کی جگہ ایک دلی کے کاتب نے لے لی۔۔۔ اور سب ٹھیک ہوگیا مگر اس کو اصلاح کرنے کا خبط تھا، اور اصلاح بھی ایسی کہ میری آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ کوئی مضمون تھا، میں نے اس میں یہ لکھا، ’’اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، اس نے یہ اصلاح فرمائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں کے طوطے اڑ گئے۔‘‘ میں نے اس کا مذاق اڑایا تو وہ خالص دہلوی لب و لہجہ میں بڑبڑاتا ملازمت سے علیحدہ ہوگیا۔

رام پور کا ایک کاتب تھا۔ بہت ہی خوش خط تھا مگر اس کو اختصار کے دورے پڑتے تھے۔ سطریں کی سطریں اور پیرے کے پیرے غائب کرتا تھا۔ جب اس کو پورا صفحہ دوبارہ لکھنے کو کہتا تو وہ جواب دیتا، ’’اتنی محنت مجھ سے نہ ہوگی صاحب۔۔۔ پوٹ میں لکھ دوں گا‘‘ پوٹ میں لکھوانا مجھے سخت ناپسند تھا چنانچہ رام پوری کاتب بھی زیادہ دن دفتر میں نہ ٹِک سکے۔

ولی محمد ہیڈ کاتب جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ خط کا نمونہ دیکھا۔ خاص اچھا نہیں تھا۔ دائروں میں پختگی ہی نہیں تھی۔ میں گنجان لکھائی کا قائل ہوں، وہ چھدرا لکھتا تھا۔ کم عمر تھا۔ اندازِ گفتگو میں عجیب قسم کی بوکھلاہٹ تھی ۔بات کرتے وقت اس کا ایک بازو ہلتا رہتا تھا۔ جیسے کلاک کا پنڈولم۔ رنگ سفید تھا۔ بالائی ہونٹ پر بھورے بھورے مہین بال تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے خود کتابت کی سیاہی سے یہ ہلکی ہلکی مونچھیں بنائی ہیں۔

میں نے اسے چند روز کے لیے رکھا۔ مگر اس نے اپنی شرافت، محنت اور تابعداری سے دفتر میں اپنے لیے مستقل جگہ پیدا کرلی۔ ولی محمد سے میرے تعلقات بہت بے تکلف تھے۔ جنسیات کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے وہ اکثر مجھ سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ اس دوران میں محمد تقی خاموش رہتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں آتا تو اس کے کان کی لویں سرخ ہوجاتیں۔ ولی محمد جو کہ شادی شدہ تھا، اس کو خالص پنجابی انداز میں چھیڑتا۔

’’منٹو صاحب اس کا مردہ خراب ہورہاہے اس سے کہیے کہ شادی کرلے۔۔۔ جب بھی کوئی فلم دیکھ کر آتا ہے۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔‘‘ تقی عام طور پر جھینپتے ہوئے کہتا، ’’منٹو صاحب جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ ولی محمد کی سیاہ نوکیلی مونچھیں تھرکنے لگیں، ’’اور یہ بھی جھوٹ ہے منٹو صاحب کہ یہ چالی بلڈنگ کی یہودی چھوکریوں کی ننگی ٹانگیں دیکھ کر ان کی نقشہ کشی کیا کرتا ہے۔‘‘ تقی کی ناک کی چونچ پر پسینے کے قطرے نمودار ہو جاتے، ’’میں تو۔۔۔ میں تو ڈرائنگ سیکھ رہا ہوں۔‘‘ ولی محمد اسے اور چھیڑتا، ’’ڈرائنگ چہرے کی سیکھو۔۔۔۔یہ کس ڈرائنگ ماسٹر نے تم سے کہا کہ پہلے ننگی ٹانگوں سے شروع کرو۔‘‘

محمد تقی قریب قریب رو دیتا، چنانچہ میں ولی محمد کومنع کرتا کہ وہ اسے نہ چھیڑا کرے۔ اس پر ولی محمد کہتا،’’منٹو صاحب، میں اس کے والد صاحب سے کہہ چکا ہوں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اس لونڈے کی شادی کرا دیجیے، ورنہ اس کا مردہ بالکل خراب ہو جائے گا۔‘‘

محمد تقی کے باپ سے میری ملاقات ہوئی۔ داڑھی والے بزرگ تھے۔ نماز روزے کے پابند۔ ماتھے پر محراب۔ بھنڈی بازار میں ولی محمد کی شراکت میں گھی کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔ محمد تقی سے ان کو بہت محبت تھی۔ باتیں کرتے ہوئے آپ نے مجھ سے کہا، ’’تقی دو برس کا تھا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔۔۔ خدا اس کو غریقِ رحمت کرے۔ بہت ہی نیک بی بی تھی۔ منٹو صاحب یقین جانیے، اس کی موت کے بعد عزیزوں اور دوستوں نے بہت زور دیا کہ میں دوسری شادی کرلوں مگر مجھے تقی کا خیال تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ میں اس کی طرف سے غافل ہوجاؤں۔ چنانچہ دوسری شادی کے خیال کو میں نے اپنے قریب تک نہ آنے دیا اور اس کی پرورش خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کوسرخرو کیا۔ خدا اس کو زندگی اور نیکی کی ہدایت دے!‘‘

محمد تقی اپنے باپ کے اس ایثار کی ہمیشہ تعریف کیا کرتا، ’’بہت کم باپ اتنی بڑی قربانی کرسکتے ہیں۔ اباّ جوان تھے۔ اچھا کھاتے تھے۔ چاہتے تو چٹکیوں میں ان کو اچھی سے اچھی بیوی مل جاتی، لیکن میری خاطر انھوں نے تجرد کی زندگی بسرکی۔ اتنی محبت اور اتنے پیار سے میری پرورش کی کہ مجھے ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہونے دی۔‘‘

ولی محمد بھی تقی کے باپ کا معترف تھا مگر اسے صرف یہ شکایت تھی کہ مولانا ذرا سنکی ہیں، ’’منٹو صاحب آدمی بہت اچھا ہے، کاروبار میں سولہ آنے کھرا ہے۔ تقی سے بہت پیار کرتا ہے۔۔۔ لیکن یہ پیار۔۔۔ میں اب اپنے احساسات کن الفاظ میں پیش کروں۔۔۔ اس کا پیار حد سے بڑھا ہوا ہے۔۔۔ یعنی وہ اس طرح پیار کرتا ہے جس طرح کوئی حاسد عاشق اپنے معشوق سے کرتا ہے۔‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا، ’’تمہارا مطلب؟‘‘ ولی محمد نے اپنی مونچھوں کی نوکیں درست کیں، ’’مطلب وطلب میں نہیں سمجھا سکتا۔ آپ خود سمجھ لیجیے۔‘‘ میں نے مسکرا کہا، ’’بھائی تم ذرا وضاحت سے کام لو، تو میں سمجھ جاؤں گا۔‘‘ ولی محمد نے سرخیاں لکھنے والے قلم کو کپڑے کے چیتھڑے سے صاف کرتے ہوئے کہا، ’’مولانا سنکی ہیں۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔ تقی کہتا ہے کہ پہلے ان کے پیار اور ان کی شفقت کا یہ رنگ نہیں تھا جو اب ہے۔۔۔ یعنی پچھلے چند برسوں سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند سے پوچھ گچھ کا لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے۔۔۔ لامتناہی ٹھیک استعمال ہے نا منٹو صاحب؟‘‘

’’ٹھیک استعمال ہوا ہے۔۔۔ ہاں یہ پوچھ گچھ کا سلسلہ کیا ہے؟‘‘

’’یہی تم رات کو دیر سے کیوں آئے۔۔۔؟ سفید گلی میں کیا کرنے گئے تھے۔ وہ یہودن تم سے کیا بات کررہی تھی۔۔۔؟ اتنے فلم کیوں دیکھتے ہو۔۔ پچھلے ہفتے تم نے کتابت کی اجرت میں سے چار آنے کہاں رکھے۔۔۔؟ ولی محمد سے تم بائی کلمہ کے پل پر بیٹھے کیا باتیں کررہے تھے۔۔۔؟ کیا وہ تمہیں ورغلا تو نہیں رہا تھا کہ شادی کرلو۔‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا، ’’ورغلانا کیا ہوا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔۔۔ لیکن مولانا سمجھتے ہیں کہ تقی کا ہر دوست اسے شادی کے لیے ورغلاتا ہے۔۔۔ میں اس کو ورغلاتا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں اور اکثر کہتا ہوں کہ جانِ من شادی کرلو ورنہ تمہارا مردہ خراب ہو جائے گا۔۔۔ اور منٹو صاحب میں آپ کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

چار پانچ برس گزر چکے تھے۔ محمد تقی کی مونچھوں کے بھورے بال اب مہین نہیں تھے، ہر روز داڑھی مونڈتا تھا۔ ٹیڑھی مانگ بھی نکالتا تھا اور دفتر میں جب جذبات کے متعلق گفتگو چھڑتی تو وہ قلم دانتوں میں دبا کر غور سے سنتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تو اس کے کانوں کی لویں سرخ نہ ہوتیں۔۔۔ محمد تقی کو بیوی کی ضرورت ہو سکتی تھی۔

ایک دن جبکہ اور کوئی دفتر میں نہیں تھا اور اکیلا تقی تخت پر دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے پرچے کی آخری کاپی مکمل کررہا تھا۔ میں نے اس کے خدوخال کا غور سے معائنہ کرتے ہوئے پوچھا،’’تقی تم شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

سوال اچانک کیا گیا تھا۔تقی چونک پڑا، ’’جی؟‘‘

’’میرا خیال ہے تم شادی کرلو۔‘‘

تقی نے قلم کان میں اڑسا اور کسی قدر شرما کر کہا، ’’میں نے ابا سے بات کی ہے۔‘‘

’’کیا کہا انھوں نے؟‘‘

تقی تفصیل سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر نہ کہہ سکا،’’جی وہ۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’ جو ان کا ہے۔‘‘

اس جواب کے بعد گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ تقی نے پرچے کی آخری کاپی مکمل کی اور اسے جوڑ کر چلا گیا۔ چند دن کے بعد ولی محمد نے تقی کی موجودگی میں مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب!کل بڑا لفڑا ہوا۔۔۔ مولانا اور تقی میں دھیں پٹاس ہوتے ہوتے رہ گئی۔‘‘ ولی محمد یوں تو اردو بولتا تھا لیکن پنجابی اور بمبئی کی اردو کے کئی الفاظ مزاح پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا عادی تھا۔

تقی نے اس کی بات سنی اور خاموش رہا۔

ولی محمد نے اپنی تھرکتی ہوئی نوکیلی مونچھوں کو آنکھوں کا زاویہ بدل کر دیکھا، پھر اس زاویے کو بدل اس نے تقی کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا، ’’لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے، لیکن باپ اس ضرورت کو مانتا ہی نہیں۔۔۔ اس نے بہت سمجھایا منٹو صاحب مگر مولانا نے ایک نہ سنی۔۔۔ منٹو صاحب یہ کیا محاورہ ہے ایک نہ سنی۔۔۔ مولانا نے سنی تو ہزار تھیں لیکن سنی ا ن سنی کردیں۔۔۔ یہ محاورے بھی خوب چیز ہیں۔۔۔! اور مولانا بھی۔۔۔ اپنے وقت کے ایک لاجواب محاورہ ہیں۔‘‘ تقی بھنا کر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’منٹو صاحب اس سے کہیے خاموش رہے۔‘‘

ولی محمد بولا، ’’منٹو صاحب اس سے کہیے کہ مولانا کے سامنے خاموش رہا کرے۔۔۔ وہ شادی کی اجازت نہیں دیتے ۔ٹھیک ہے۔۔۔ باپ ہیں ،وہ اس کا نفع نقصان سوچ سکتے ہیں۔‘‘ باپ بیٹے کی چخ ضرور ہوئی تھی۔ تقی نے مولانا سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کی شادی کسی اچھے گھرانے میں کر دیں یہ سن کر وہ چڑ گئے اور تقی کو دوستوں پر برسنے لگے،’’تمہارے دوستوں نے تمہاری جڑوں میں پانی پھیر دیا ہے۔۔۔ جب میں تمہاری عمر کا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ شادی بیاہ کس جانور کا نام ہے؟‘‘

یہ سن کر تقی نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’لیں۔۔ آپ کی شادی تو چودہ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔‘‘مولانا نے اسے ڈانٹا، ’’تمہیں کیا معلوم ہے؟‘‘ تقی خاموش ہوگیا۔۔۔ وہ بہت ہی کم گو اور فرماں بردار قسم کا لڑکا تھا۔ دو چار مرتبہ اس نے بے تکلف گفتگو کی اور اس کوکھلنے کا موقع دیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کو بیوی کی واقعتاً ضرورت ہے۔

اس نے مجھ سے ایک روز جھینپتے ہوئے کہا، ’’میرے خیالات آج کل بہت پراگندہ رہتے ہیں۔ ولی محمد شادی شدہ ہے۔ وہ جب اپنی بیوی کے ساتھ باہر جاتا ہے تو میرے دل کو جانے کیا ہوتا ہے۔۔۔ آپ نے ایک دفعہ احساس کمتری کے متعلق باتیں کی تھیں۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں عنقریب اس کا شکار ہونے والا ہوں۔ مگر کیا کروں۔ ابا مانتے ہی نہیں۔ میں شادی کی بات کرتا ہوں تو وہ چڑ جاتے ہیں۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے شادی کرنا کوئی گناہ ہے۔۔۔ وہ اپنی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو تمہاری ماں کے مرنے کے بعد اب تک میں نے شادی نہیں کی۔۔۔ لیکن منٹو صاحب۔۔۔ اس مثال کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے۔۔۔انھوں نے شادی کی، اللہ کو یہ منظور نہیں تھاکہ ان کی بیوی زندہ رہتی انھوں نے بہت بڑی قربانی کی جو میری خاطر دوسری شادی نہ کی۔۔۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں کنوارا ہی رہوں۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

تقی نے جواب دیا، ’’معلوم نہیں منٹو صاحب۔۔۔ وہ میری شادی کے بارے میں کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔۔۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن کل باتوں باتوں میں جذبات سے مغلوب ہو کر میں گستاخی کر بیٹھا۔‘‘

’’کیا؟‘‘

تقی نے انتہائی ندامت کے ساتھ کہا، ’’میں منت سماجت کرتے کرتے اور سمجھاتے سمجھاتے تنگ آگیا تھا۔۔۔ کل جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ میری شادی کے متعلق کچھ سننے کو تیار نہیں تو میں نے غصے میں آکر ان سے کہہ دیا۔۔۔ آپ نہیں سنیں گے تو میں اپنی شادی کا بندوبست خود کرلوں گا۔‘‘

میں نے اس سے پوچھا، ’’یہ سن کر انھوں نے کیا کہا۔‘‘ ابھی ابھی گھر سے نکل جاؤ۔۔۔ چنانچہ کل رات میں یہاں دفتر ہی میں سویا۔میں نے شام کو ولی محمد کے ذریعے سے مولانا کو بلوایا۔۔۔ چند جذباتی باتیں ہوئیں تو انھوں نے تقی کو گلے لگا کر رونا شروع کردیا۔ پھر شکوے ہونے لگے۔ مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ لڑکا جس کی خاطر میں نے تجرد برداشت کیا ایک روز میرے ساتھ ایسی گستاخی سے پیش آئے گا۔ میں نے ماؤں کی طرح اسے پالا پوسا، آپ سوکھی کھائی پر اس کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے گھی میں گوندھ گوندھ کر پراٹھے پکائے۔۔۔‘‘

میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’مولانا، یہ کب آپ کے ان احسانات کو نہیں مانتا۔ آپ کی تمام قربانیاں اس کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔ آپ نے اتنا کچھ کیا۔ کیا آپ اس کی شادی نہیں کرسکتے۔ ماں باپ کی تو سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھیں۔ آپ کے گھر میں بہو آئے گی۔ بال بچے ہوں گے۔ دادا جان بن کر آپ کو پر فخر مسرت نہ ہوگی۔۔۔؟ میرا خیال ہے تقی کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ آپ شادی کے خلاف ہیں۔‘‘

مولانا لاجواب ہوگئے۔ رومال سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگے۔ تھوڑے توقف کے بعد بولے، ’’پر کوئی ایسا رشتہ ہوتو۔۔۔‘‘

’’آپ ہاں کردیجیے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

ولی محمد نے یہ کچھ ایسے انداز میں کہا، ’’چلیے انگوٹھا لگائیے۔‘‘ مولانا بدک گئے، ’’لیکن ایسی جلدی بھی کیا ہے؟‘‘ اس پر میں نے بزرگوں کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا، ’’کار خیر میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔۔ آپ اوروں کو چھوڑیئے، خود اپنی پسند کا رشتہ ڈھونڈھیے۔۔۔ ماشاء اللہ ڈونگری میں سب لوگ آپ کو جانتے ہیں۔۔۔ یہاں بمبئی میں پسند نہ ہو تو اپنے پنجاب میں سہی۔ کون سا کالے کوسوں دور ہے۔‘‘ مولانا نے سر ہلا کر صرف اتنا کہا، ’’جی ہاں!‘‘

میں نے تقی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، ’’لو بھئی تقی۔۔۔ فیصلہ ہوگیا۔ مولانا کو تم ضدی بچوں کی طرح اب تنگ نہ کرنا۔۔۔ میں خود اس معاملے میں ان کی مدد کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں مولانا سے مخاطب ہوا، ’’یہاں کچھ خاندان ہیں۔ ان سے میری جان پہچان ہے۔ میں اپنی بیوی سے کہوں گا وہ لڑکیاں دیکھ لے گی۔‘‘تقی نے ہولے سے کہا،’’آپ کی بہت مہربانی۔‘‘

کئی مہینے گزر گئے مگر تقی کی شادی کی بات چیت کہیں بھی شروع نہ ہوئی۔ ولی محمد اس دوران میں اسے برابر اکساتا رہا۔ وہ اپنے باپ کے پیچھے پڑا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز مولانا میرے پاس آئے اور کہا، ’’سانگلی اسٹریٹ کی تیسری گلی میں نکڑ کی بلڈنگ میں۔۔۔ شاید آپ جانتے ہی ہوں۔۔۔ یوپی کا ایک خاندان رہتا ہے۔۔۔‘‘

میں نے فوراً کہا، ’’آپ کہیے۔۔۔ میں جانتا ہوں!‘‘

مولانا نے پوچھا، ’’کیسے لوگ ہیں؟‘‘

’’بے حد شریف!‘‘

’’جو سب سے بڑا بھائی ہے۔ اس کی بڑی لڑکی۔۔۔ میں نے سنا ہے خاصی اچھی ہے!‘‘

’’میں پیغام بھجوا دیتا ہوں۔‘‘

مولانا گھبرا گئے، ’’نہیں، نہیں۔۔۔ اتنی جلدی نہیں۔۔۔ یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ لڑکی شکل و صورت کی کیسی ہے؟‘‘

’’میں اپنی بیوی کے ذریعہ سے معلوم کرلوں گا۔‘‘

میری بیوی نے اس لڑکی کو دیکھا تو پسند کیا۔ قبول صورت تھی۔ تعلیم انٹرنس تک تھی۔ طبیعت کی بہت ہی اچھی تھی۔ یہ سب خوبیاں مولانا سے بیان کردی گئیں۔ وہ لڑکی کے باپ سے ملے جہیز اور حق مہر کے متعلق بات چیت ہوئی۔ یہ ابتدائی مراحل بخیر و خوبی طے ہوگئے۔ تقی بہت خوش تھا۔ لیکن تین مہینے گزر گئے اور بات وہیں کی وہیں رہی۔ آخر ایک روز معلوم ہوا کہ لڑکی والوں نے مزید گفتگوسے انکار کردیا ہے کیونکہ وہ تقی کے باپ کی مین میخ سے تنگ آچکے ہیں۔ بار بار وہ ان سے جا جا کر یہ کہتا تھا۔ دیکھیے لڑکی کے جہیز میں اتنے جوڑے ہوں، برتنوں کی تعداد یہ ہو۔ لڑکی نے اگر میری حکم عدولی کی تو اس کی سزا طلاق ہوگی۔ فلم دیکھنے ہرگز نہ جائے گی۔ پردے میں رہے گی۔میں نے جب ان بے جا باتوں کا ذکر تقی سے کیا۔ تو وہ اپنے باپ کی طرف ہوگیا۔

’’نہیں منٹو صاحب۔ لڑکی والے ٹھیک نہیں۔ ابا کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ وہ مجھے زن مُرید بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا، ’’ایسا ہے تو چھوڑو۔۔۔ کسی اور جگہ سہی۔‘‘

تقی نے کہا، ’’ابا کوشش کررہے ہیں۔‘‘

مولانا نے ڈونگری میں اپنے ایک واقف کار کے ذریعے سے بات چیت شروع کی سب کچھ طے ہوگیا۔ نکاح کی تاریخ بھی مقرر ہوگئی۔ مگر ایک دم کچھ ہوا اور سب کچھ ڈھے گیا۔۔۔ لڑکی والوں کو تقی پسند تھا، لیکن جب مولانا سے اچھی طرح ملنے جلنے کا اتفاق ہوا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ پکا کردیا۔ تقی نے پھر اپنے باپ کی طرف داری کی اور مجھ سے کہا،’’یہ لوگ بڑے لالچی تھے منٹو صاحب۔۔۔ ایک دولت مند کا لڑکا مل گیا تو اپنی بات سے پھر گئے۔۔۔ ابا شروع ہی سے کہتے تھے کہ یہ لوگ مجھے ایمان دار معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن میں خواہ مخواہ ان کے پیچھے پڑا رہا۔ کہ جلدی معاملہ طے کیجیے۔‘‘

کچھ عرصے کے بعد تیسری جگہ کوشش شروع ہوئی۔ یہاں بھی نتیجہ صفر۔ چوتھی جگہ بات چیت شروع ہوئی تو تقی نے مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب، وہ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’بڑے شوق سے ملیں۔‘‘

میں ان سے ملا۔ آدمی شریف تھے۔ مولانا سے ان کی چند مختصر باتیں ہوئیں۔ میں نے تقی کی تعریف کی۔ معاملے طے ہوگیا۔ لیکن چند ہی دنوں میں گڑ بڑ پیدا ہوگئی۔ لڑکی کے بڑے بھائی نے کسی سے سنا کہ مولانا دکان پر اپنے ایک دوست سے کہہ رہے تھے، ’’لڑکی میرے کہنے پر نہ چلی تومیں تقی کی دوسری شادی کردوں گا۔‘‘ وہ یہ سن کر میرے پاس آیا۔ میں نے مولانا کو بلوایا۔ ان سے پوچھا تو داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگے،’’میں نے کیا برا کہا۔۔۔ میں ایسی بہو گھر میں نہیں لانا چاہتا جو میرا کہا نہ مانے۔۔۔ میں تقی کی شادی اس لیے کررہا ہوں کہ مجھے آرام پہنچے۔‘‘

عجیب و غریب منطق تھی۔ میں نے پوچھا، ’’آپ کو آرام ضرور پہنچنا چاہیے۔ مگر آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاوند اور بیوی کا رشتہ آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ مولانا نے کسی قدر خفگی کے ساتھ کہا، ’’میں خاوند رہ چکا ہوں منٹو صاحب۔۔۔ آپ کے خیالات میرے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔۔۔ آپ کے ساتھ کام کرکے، مجھے افسوس ہے میرے لڑکے کے خیالات بھی بدل گئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کروہ تقی سے مخاطب ہوئے، ’’سنا تم نے۔۔۔ میں ایسی لڑکی گھر میں نہیں لانا چاہتا ہوں جو میری اور تمہاری خدمت نہ کرے۔‘‘

اس کے بعد دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان سے جو میں نے نتیجہ نکالا وہ میں نے تقی کو بتادیا، ’’دیکھو بھئی۔۔۔ بات یہ ہے کہ تمہارے والد صاحب تمہاری شادی نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار کوئی نہ کوئی شوشہ چھیڑ دیتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں تاکہ معاملہ آگے نہ بڑھنے پائے۔‘‘

مولانا خاموش اپنی داڑھی پرہاتھ پھیرتے رہے۔ تقی نے مجھ سے پوچھا، ’’کیوں۔۔۔ یہ میری شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا، ’’مولانا کا دماغ خراب ہے۔‘‘

مولانا کو اس قدر طیش آیا کہ منہ میں جھاگ بھر کر واہی تباہی بکنے لگے۔ میں نے تقی سے کہا، ’’جاؤ، مولانا کو کسی ذہنی شفاخانہ میں لے جاؤ۔۔۔ اور میری یہ بات یاد رکھو۔ جب تک ان کا دماغ درست نہیں ہوگا۔ تمہاری شادی ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ ان کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو انھوں نے تمہارے لیے کی۔‘‘

مولانا نے تقی کا بازو زور سے پکڑا اور مجھے صلواتیں سناتے چلے گئے۔ ولی محمد میرے پاس بیٹھا سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا۔ اتنی دیر وہ اپنی نوکیلی مونچھوں کے وجود سے بالکل غافل رہا۔ جب مولانا اور تقی چلے گئے تو اس نے آنکھوں کا زاویہ درست کرکے ان کی طرف دیکھا اور کہا،’’مردہ خراب ہورہا ہے بیچارے کا۔۔۔ لیکن منٹو صاحب آپ نے باون تولہ اور پاؤ رتی کی بات کہی۔۔۔ محاورہ درست استعمال ہوا ہے نا؟‘‘

’’تم نے محاورہ درست استعمال ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مولانا کی طبیعت صاف کرتے ہوئے میں نے مناسب و موزوں الفاظ استعمال نہیں کیے۔‘‘

’’بڑا ملعون آدمی ہے!‘‘ ولی محمد نے یہ کہہ کر اپنی مونچھ کا ہٹیلا بال بڑے زور سے اکھیڑا اور بڑی سنجیدگی اختیارکرکے مجھ سے پوچھا،’’منٹو صاحب، کیا مطلب تھا آپ کا اس سے کہ مولانا کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو اس نے تقی کے لیے کی۔ بات ضرور باون تولہ اور پاؤ رتی کی ہے لیکن پوری طرح میرے ذہن میں بیٹھی نہیں۔‘‘

میں نے اس کو سمجھایا، ’’بیوی کی موت کے بعد ایک وقتی جذبہ تھا جس کے تحت مولانا نے تجرد کے دن گزارنے کا تہیہ کیا۔ یہ جذبہ اپنی طبعی موت مرا تو آپ کے لیے دو سوگ ہوگئے، ایک بیوی کی موت کا، دوسرا اس جذبے کی موت کا۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور مولانا نیم کے کریلے بنتے گئے۔۔۔ مجھے تو بھئی ولی محمد بہت ترس آتا ہے اس غریب پر۔۔۔ ایک شخص جس نے پچیس برس تک اپنے اور عورت کے درمیان ایک دیوار حائل رکھی ہو، وہ کس طرح اپنے جوان بیٹے کے پہلو میں ایک جوان عورت دیکھ سکتا ہے۔۔۔ اور وہ بھی نظروں کے بہت قریب۔‘‘

دوسرے دن تقی نہ آیا۔ ولی محمد کے ہاتھ اس نے کتابت کا بل بھجوا دیا جو ادا کردیا گیا۔۔۔ تقی کو بہت افسوس تھا کہ میں نے اس کے باپ کو برا بھلا کہا۔ میں نے ولی محمد سے کہہ دیا، ’’مجھے کوئی افسوس نہیں۔۔۔ تقی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کا باپ ذہنی اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ لیکن مجھے یہ افسوس ضرور ہے کہ اس نے کام چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ولی محمد نے تقی سے واپس آنے کو کہا۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس نے کسی اور دفتر میں ملازمت نہ کی اور دکان پر بیٹھ کر گھی بیچنے لگا۔ ولی محمد نے جب زور دیا تو اس نے وہیں کتابت کا کام بھی شروع کردیا۔

میں ایک کام سے دہلی چلا گیا۔ تین چار مہینے وہاں رہ کر بمبئی لوٹا تو ولی محمد نے پلیٹ فارم ہی پر یہ خبر سنائی کہ تقی کی شادی ایک ہفتہ پہلے بخیرو خوبی ہو چکی ہے۔مجھے یقین نہ آیا لیکن ولی محمد نے قرآن کی قسم کھا کر کہا، ’’منٹو صاحب، میں جھوٹ نہیں کہتا۔۔۔ نکاح کے چھوارے میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی شادی نہ ہوتی ہو۔ اس کے لیے اکسیر ثابت ہوں گے۔‘‘

میں نے تقی کو بلایا، مگر وہ نہ آیا۔

تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد ایک دن علی الصبح ولی محمد آیا۔ اس کی نوکیلی مونچھیں تھرک رہی تھیں، کہنے لگا، ’’منٹو صاحب۔ کل دھیں پٹاس ہوگئی باپ بیٹے میں۔ تقی اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا کہیں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’معلوم نہیں‘‘ یہ کہہ کر آنکھوں کا زاویہ بدل کر ولی محمد نے اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا،’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب۔۔۔ لڑائی کا باعث معلوم نہیں ہوسکا۔۔۔ مولانا بالکل خاموش ہیں۔۔۔ ‘‘مولانا بہت دیر تک خاموش رہے اور ان کا بیٹا محمد تقی بھی۔ بمبئی میں ولی محمد اور اس کے ساتھیوں نے تقی کو بہت تلاش کیا۔ مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

بہت دنوں کے بعد دلی سے مجھے تقی کا ایک خط وصول ہوا۔ لکھا تھا، ’’بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو خط لکھوں اور حالات سے آگاہ کروں۔ مگر جرأت ساتھ نہ دیتی تھی۔۔۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ خط کسی اور کو نہ دکھائیے گا۔آپ نے میرے والد کے متعلق جو کچھ کہا تھا، ٹھیک نکلا۔ میں نے آپ کی باتوں کا برا مانا تھا۔ اس لیے کہ مجھے اصلیت کا علم نہیں تھا جو مجھے شادی کے بعد معلوم ہوئی۔

میرے والد کا دماغ واقعی درست نہیں۔ ہو سکتا ہے پہلے ٹھیک ہو۔ لیکن میری شادی کے بعد تو قطعاً ان کی دماغی حالت درست نہ تھی۔ ان کی یہی کوشش تھی کہ میں اپنی بیوی سے دور رہوں۔ مجھ میں اور اس میں دوری پیدا کرنے کے لیے وہ عجیب و غریب طریقے ایجاد کرتے تھے،جو ایک دیوانہ ہی کرسکتا ہے۔ میں نے بہت دیر تک برداشت کیا۔۔۔ مجھے تمام واقعات بیان کرتے ہوئے بہت شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ایک روز میری بیوی غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ آپ نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھنا شروع کردیا۔۔۔ میں اور کیا لکھوں۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کے دماغ کو کیا ہوگیا ہے۔ خدا ان کی حالت پر رحم کرے۔‘‘

’’میں یہاں دہلی میں ہوں اور بہت خوش ہوں۔‘‘

میں یہ خط پڑھ رہا تھا کہ ولی محمد آیا۔ اس کے پاس تقی کا ایک اور خط تھا۔ میری طرف بڑھا کر اس نے کہا، ’’یہ خط تقی نے دہلی سے اپنے باپ کو لکھا ہے۔۔۔ صرف چند الفاظ ہیں۔‘‘

’’میں نے پوچھا کیا؟‘‘

’’ولی محمد نے کہا پڑھ لیجیے۔‘‘

میں نے یہ الفاظ پڑھے،’’قبلہ والد صاحب۔۔۔ میں یہاں خیریت سے ہوں۔۔۔ آپ نے میرا گھر آباد ہے۔۔۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی اپنا گھر آباد کرلیں۔۔۔‘‘

ولی محمد نے آنکھوں کا زاویہ بدل کر اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا اور کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ لڑکا ہوشیار ہوگیا ہے۔۔۔ لیکن مولانا تو اپنی بات پکی کر چکے ہیں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

ولی محمد کی مونچھیں تھرکیں، ’’ایک گھی بیچنے والی سے۔۔۔ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔۔۔ محاورہ ٹھیک استعمال کیا نہ منٹو صاحب۔‘‘

میں ہنس پڑا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.