تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں
تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں
تمھیں خود یہ کہہ دو برا چاہتا ہوں
کوئی مول لے تو بکا چاہتا ہوں
میں صاحب سے بندہ ہوا چاہتا ہوں
تمھیں چاہو مجھ کو تو کیا چاہیے پھر
میں اس کے سوا اور کیا چاہتا ہوں
مرا مدعا کیا سمجھتے نہیں ہو
تمہیں چاہتا ہوں تو کیا چاہتا ہوں
مسیحا ہو گر تم تو اپنے لیے ہو
میں اپنے مرض کی دوا چاہتا ہوں
تمہیں چاہوں میں تم رقیبوں کو چاہو
یہ انصاف پیش خدا چاہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |