تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
پردہ اٹھے کہ نہ اٹھے مگر اے پردہ نشیں
آج ہم رسم تکلف کو اٹھا دیتے ہیں
آتے جاتے نہیں کمبخت پیامی ان تک
جھوٹے سچے یوں ہی پیغام سنا دیتے ہیں
وائے تقدیر کہ وہ خط مجھے لکھ لکھ کے ظہیرؔ
میری تقدیر کے لکھے کو مٹا دیتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |