تماشا ہو جو دل میں عکس روئے یار ہو پیدا
تماشا ہو جو دل میں عکس روئے یار ہو پیدا
کہ اپنا عشق کا اک محرم اسرار ہو پیدا
رخ و گیسو دکھا کر ناز سے کہتا ہے وہ دلبر
کوئی کافر ہو پیدا اور کوئی دیں دار ہو پیدا
تمہاری سلک دنداں کے تصور نے رلایا ہے
نہ کیوں اشکوں سے میرے گوہر شہوار ہو پیدا
کہیں منہ پھیرتا ہے جاں نثار عشق مرنے سے
فدا وہ جان کر لے تجھ پہ گر سو بار ہو پیدا
اگر گریہ کناں سرشار الفت ہوں تو اے ساقی
انہیں کے آنسوؤں سے بادۂ گلنار ہو پیدا
مداوا غیر ممکن ہے ترے بیمار الفت کا
جو اک آزار اچھا ہو تو اک آزار ہو پیدا
جمیلہؔ ناوک مژگان دلبر سے جو ہو زخمی
نہ کیوں اس کی لحد پر نرگس بیمار ہو پیدا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |