تمدن عرب اور پروفیسر شبلی

تمدن عرب اور پروفیسر شبلی
by مہدی افادی
319487تمدن عرب اور پروفیسر شبلیمہدی افادی

فاضل پروفیسر نے اپنی ایک جدید تالیف تہدیہ کی حیثیت سے سلسلۂ آصفیہ کی فہرست میں داخل کی ہے اور سلسلۂ آصفیہ کی تقریب ان الفاظ میں کی ہے،

’’ہمارے معزز و محترم دوست شمس العلماء مولانا سید علی بلگرامی’ بجمیع القابہ‘ کو تمام ہندوستان جانتا ہے، وہ جس طرح بہت بڑے مصنف، بہت بڑے مترجم، بہت بڑے زبان داں ہیں، اسی طرح بہت بڑے علم دوست اور اشاعت علوم و فنون کے بہت بڑے مربی و سرپرست ہیں ۔ اس دوسرے وصف نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انھوں نے نواب سروقار الامرا بہادر کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ ہزہائنیس نظام کے سایۂ عاطفت میں علمی تراجم و تصنیفات کا ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جائے۔ سلسلۂ آصفیہ کے لقب سے ملقب ہو اور وابستگان دولت آصفیہ کی جو تصنیفات خلعت قبول پائیں، وہ اس سلسلہ میں داخل کی جائیں۔ سروقارالامرا کو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں جو التفات و توجہ رہی، اور جس کی بہت سی محسوس یادگاریں اس وقت موجود ہیں، اس کے لحاظ سے جناب ممدوح نے اس درخواست کو نہایت خوشی سے منظور کیا، چنانچہ کئی برس سے یہ مبارک سلسلہ قائم ہے اور ہمارے شمس العلماءکی کتاب ’تمدن عرب‘اسی سلک کا ایک بیش بہا گوہر ہے۔‘‘

تمدن عرب اور اس کے مترجم کی نسبت یہ اس شخص کی رائے ہے جو باعتبار وسیع النظری اور مذاق تالیف، یورپ کے کسی مؤرخ سے پیچھے نہیں ہے اور ملک میں مؤرخانہ عظمت کے لحاظ سے غالباً معلم اول سمجھا جاتا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ گذشتہ اشاعت کے سلسلہ میں تائیداً مجھ کو ایک زبردست رائے پیش کرنے کا موقع ملا، جو یقینی اکثر شائقین کے تاریخی مذاق کو ابھارےگی۔ یہ اقتباس اس حیثیت سے ’’عین وقت کی چیز‘‘ ہے کہ جو لوگ تمدن عرب سی کتاب کا (جس کے تاریخی اجزاء کم و بیش ہزار صفحوں پر قابض ہیں) بلحاظ فن کوئی صحیح اندازہ کرنے سے معذور ہیں، کسی حد تک ان کے خیالات پر اس سے روشنی پڑےگی اور وہ غیر طبعی سکون جو علمی دلچسپیوں کی طرف سے دیسی طبائع میں عموماً پایا جاتا ہے، آئے دن کی چھیڑ چھاڑ سے غالباً تحریک میں آئےگا۔

اگر یہ ہوا تو میں سمجھوں گا کہ مجھ کو اپنی غایت میں امید سے زیادہ کامیابی ہوئی کیونکہ دراصل مقصود بالذات صرف یہی ہے، ورنہ کسی تالیف یا مؤلف کا کوئی ہو، نقیب بننا بنانا منظور نہیں۔ ملک کے اچھے لکھنے والے میرے آپ کے اعتراف سے، جو شاید ’تحسین ناسپاس‘ سے کچھ ہی بڑھ کر ہے، عموماً بے نیاز ہوتے ہیں، وقت اور مذاق صحیح آپ ان کے نتائج افکار کی قدر کرائےگا۔

پروفیسر شبلی کی تالیف موعود (الفاروق) جس کا ذکر ضمناً آ گیا اور جس پر ریاض الاخبار میں ایک نوٹ دیاگیا ہے، نہایت خوشی کی بات ہے کہ شائع ہو گئی اور برسوں کے بعد حالت منتظرہ رفع ہوئی۔ یہ گوہر شب چراغ، اسی قیمتی سلک (سلسلۂ آصفیہ) کا ایک خوش آب موتی ہے، جس میں تمدن عرب کے اجزاء پروئے گئے ہیں، غالباً یہ عمروں کی کمائی ہے، بڑی کاوش و اہتمام سے سالہا سال کی مؤرخانہ تلاش اور تدقیق کے بعد ناموران اسلام کے سلسلہ میں خلیفۂ دوم (حضرت عمرؓ) کی لائف پر یہ ضخیم تالیف تیار کی گئی ہے۔ مؤرخ نے محض تحقیق واقعات کے لئے ممالک غیر یعنی ٹرکی و مصر وغیرہ کے مصائب سفر برداشت کئے۔ سیکڑوں قدیم ونایاب تاریخوں کے ہزاروں ورق الٹنے پڑے اور جہاں تک دسترس تھا، اصلی ماخذ کی چھان بین میں یورپ کا تاریخی سرمایہ بھی بچنے نہیں پایا۔

غرضیکہ معلومات کا جو ذخیرہ جمع کیا گیا ہے وہ میرے خیال میں تاریخ فاروقی کے مہمات مسائل ہیں، جن کی نسبت یہ عام دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کسی زبان میں اس قدر مواد یکجا نہیں مل سکتا۔ ایسی بے نظیر تالیف چاہتی ہے کہ مستقلاً ایک تفصیلی نظر اس پر ڈالی جائے مگر یہ لائق لوگوں کا کام ہے اور جس طرح ایک چلتا ہوا شاعر اور وں کی طبع آزمائی کے بعد قلم ٹھانا پسند کرتا ہے، میری خواہش ہے ذرا بڑے لوگ کچھ لکھ لیں پھر دیکھوں گا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ آج جن کے قلم کا لوہا مانا جاتا ہے، وہ ہم عصر انہ کوششوں کے اعتراف میں عموماً ممسک ہوتے ہیں، اور صرف اس لئے کھل کر کسی چیز کی داد نہیں دیتے کہ وہ ان کے دماغ کی پیداوار نہیں ہے، حالانکہ یہ قابل افسوس اخلاقی کمزوری ہے۔

یہ چند سطریں جہاں تک الفاروق کا تعلق ہے، صرف اشتہاری حیثیت سے ہیں، امید ہے ملک عام طور پر دست شوق بڑھائےگا، محض شبلی کا نام کافی ضمانت ہے۔

میری پہلی نظر بوجوہ اپنے پیارے دوست ڈاکٹر ابوظفر پر پڑتی ہے جو غالباً کتابی اوراق کو کرنسی نوٹ کے کاغذ سے قیمتی سمجھتے ہیں، کتاب بھی ایک مادی چیز ہے مگر بہ تبدیلی ہیئت۔ روشن خیال شیخ محمد کے ہوتے گورکھ پور کی بدنصیبی ہوگی، اگر کیلنن لائبریری کے آغوش میں سلسلۂ آصفیہ کے یہ قیمتی نمونے (تمدن عرب و الفاروق) پیش پیش نہ ہوئی۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.