تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم
تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم
خودداریوں کا خواب پریشاں ہے اور ہم
ساحل سے دور غرق ہوئی کشتئ امید
موجوں کو چھیڑتا ہوا طوفاں ہے اور ہم
کس نے حریم ناز کا پردہ الٹ دیا
نظروں میں ایک شعلۂ لرزاں ہے اور ہم
تیری تجلیاں ہیں جہاں تک نظر گئی
اسرار کائنات کا عرفاں ہے اور ہم
بالیں سے کون محو تبسم گزر گیا
اب ہر نظر بہار بد اماں ہے اور ہم
وارفتگیٔ عشق نے پہنچا دیا کہاں
خاموش اک فضائے بیاباں ہے اور ہم
اے دلؔ یہ سن رہے ہیں کہ دنیا بدل گئی
اب تک انہیں حدوں میں بیاباں ہے اور ہم
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |