تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں

تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں (1929)
by رادھے شیام رستوگی احقر
324350تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں1929رادھے شیام رستوگی احقر

تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں
مری دیوانگی کے ذکر دیوانوں میں رہتے ہیں

نہیں پروائے ایماں کافران عشق کو ہرگز
انہیں کعبہ سے کیا مطلب جو بت خانوں میں رہتے ہیں

تلاش اس رشک لیلیٰ کی جو رہتی ہے ہمیں ہر دم
اسی سے قیس کے مانند وہ ویرانوں میں رہتے ہیں

میان محفل احباب ہے وہ شمع کی صورت
ہم اس سے لو لگائے اس کے پروانوں میں رہتے ہیں

فلک سے بڑھ کے رتبہ ہو نہ کیوں کر قصر جاناں کا
ملائک جس جگہ ادنیٰ سے دربانوں میں رہتے ہیں

عجب ہے نیک صحبت کی نہ ہوتا سیر انساں میں
مہذب بنتے ہیں حیوان جو انسانوں میں رہتے ہیں

نہ ہو مضمون عالی کیوں بھلا اشعار احقرؔ میں
سخن دانوں سے صحبت ہے زبان دانوں میں رہتے ہیں


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).