تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا

تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
by منیرؔ شکوہ آبادی

تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
بتاؤ آپ سے جاتا تو میں کدھر جاتا

نہیں ہے کوئی بھی ساتھی تمہارے مجرم کا
پکار اٹھتے سب اعضا جو میں مکر جاتا

اجل کے بھیس میں میری تلاش کر لیتے
وہ آپ ڈھونڈ کے خود لاتے میں جدھر جاتا

تکلفات محبت نے قید کر رکھا
ہر ایک سمت تھی دیوار میں کدھر جاتا

کبھی نہ سامنے آتا ذلیل کہلا کر
جو وہ بلاتے تو میں اپنے نام پر جاتا

بھلا چھپائے سے چھپتا لہو شہیدوں کا
یہ خون بول ہی اٹھتا جو تو مکر جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse