تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے

تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے
by آرزو لکھنوی

تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے
چھپایا ہو گناہ عشق تو پوچھو گواہوں سے

میں کشکول دل بے مدعا لے کر کہاں جاؤں
یہ پیغام طلب کیوں اونچی اونچی بارگاہوں سے

زباں ہو ایک الفت کی تو ممکن ہے زباں بندی
ہوئی جو بات چپکے کی وہ کہہ ڈالی نگاہوں سے

محبت اندر اندر زیست کا نقشہ پلٹتی ہے
یہی چلتی ہوئی سانسیں بدل جائیں گی آہوں سے

سند بے اعتمادی کی ہے قبل امتحاں گویا
بیان حال کے پہلے حلف لینا گواہوں سے

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

ہوئے جب آپ سے باہر پھر احساس دوئی کیسا
پتہ منزل کا ملتا ہے انہیں گم کردہ راہوں سے

بتا سکتی نہیں روئیدگی سبزہ و گل بھی
فقیروں سے پٹے تھے یہ گڑھے یا بادشاہوں سے

چھلکتے ظرف کا کھلتا بھرم کھوتا ہے بات اپنی
سکوں پاتا ہے دل کا درد نالوں سے نہ آہوں سے

یہ پہلے سوچ لیں آنکھوں میں لہراتے ہوئے آنسو
کہ وہ پھر اٹھ بھی سکتے ہیں جو گر جائیں نگاہوں سے

ملا بیٹھا ہے سب میں کچھ مگر منہ سے نہیں کہتا
الگ سمجھو تم اپنے آرزوؔ کو دادخواہوں سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse