تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
کہیں سایہ مرا پڑا صاحب
ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب
غیر اور تم بھلے بھلا صاحب
کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے
خیر ہے میں نے کیا کیا صاحب
کیوں لگے دینے خط آزادی
کچھ گنہ بھی غلام کا صاحب
ہائے ری چھیڑ رات سن سن کے
حال میرا کہا کہ کیا صاحب
دم آخر بھی تم نہیں آتے
بندگی اب کہ میں چلا صاحب
ستم آزار ظلم و جور و جفا
جو کیا سو بھلا کیا صاحب
کس سے بگڑے تھے کس پہ غصہ تھا
رات تم کس پہ تھے خفا صاحب
کس کو دیتے تھے گالیاں لاکھوں
کس کا شب ذکر خیر تھا صاحب
نام عشق بتاں نہ لو مومنؔ
کیجئے بس خدا خدا صاحب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |