تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو

تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو (1928)
by سید امیر حسن بدر
324283تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو1928سید امیر حسن بدر

تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو
کام کرنے کا ہے یہ کرنے دو

ان کو اے ہم نشیں سنورنے دو
کوئی مرتا جو ہے تو مرنے دو

ناروا ظلم ان کو کرنے دو
خون ناحق میں ہاتھ بھرنے دو

باندھی تلوار کھل پڑا جوڑا
کھائے لچکے تری کمر نے دو

خون بولے گا سر پہ چڑھ کے وہاں
قتل کر کے یہاں مکرنے دو

چھینٹے کوثر کے واعظو دینا
ابھی شیشہ میں تو اترنے دو

بزم برخاست مے کشو نہ کرو
مرا جام سفال بھرنے دو

دیکھنا ٹھنڈی گرمیاں ان کی
ان کو حمام میں نکھرنے دو

چپ ہوئی کیوں زبان کیوں روکی
پھول جھڑنے دو گل کترنے دو

خود پریشان رو سیہ ہوگی
کان بھرتی ہے زلف بھرنے دو

جوش پر سیل اشک ہے ٹھیرو
ہیں چڑھیں ندیاں اترنے دو

فکر کیوں ہے نمک فشانی کی
زخم آ لے ابھی ہیں بھرنے دو

محو شکر جفا رہو تم بدرؔ
ظلم کرتے ہیں وہ تو کرنے دو

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse