تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
ہم کو بھی اب عدو سے عداوت نہیں رہی
ہر اک ادا پہ مرنے کی عادت نہیں رہی
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
مضمون مدعا ابھی دل میں ہی تھا مرے
کہتے ہیں اب تو تاب سماعت نہیں رہی
واں ہے وہی وفور عتاب و جفا و قہر
یاں ناز بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رہی
بے شک نقاب رخ سے اٹھایا کسی نے آج
ظلمت کدہ میں میرے جو ظلمت نہیں رہی
مشتاقؔ تیرے عشق کی ہے دھوم آج کل
اب قیس و کوہ کن کی وہ شہرت نہیں رہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |