تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
یہ تو کہنے ہی کی باتیں ہیں کہاں سنتے ہو
چاہ کا ذکر تمہاری میں کیا کس آگے
کون کہتا ہے کہو کس کی زباں سنتے ہو
کشش عشق ہی لائی ہے تمہیں یاں ورنہ
آپ سے تھا نہ مجھے یہ تو گماں سنتے ہو
ایک شب میرا بھی افسانۂ جاں سوز سنو
قصے اوروں کے تو اے جان جہاں سنتے ہو
وہ گل اندام جو آیا تو خجالت سے تمام
زرد ہو جاؤ گے اے لالہ رخاں سنتے ہو
ایک کے لاکھ سناؤں گا خبردار رہو
اس طرف آئی اگر طبع رواں سنتے ہو
آج کیا ہے کہو کیوں ایسے خفا بیٹھے ہو
اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو
کون ہے کس سے کروں درد دل اپنا اظہار
چاہتا ہوں کہ سنو تم تو کہاں سنتے ہو
یہ وہی شوخ ہے آتا ہے جو بیدارؔ کے ساتھ
جس کو غارت گر دل آفت جاں سنتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |