تم ہجر کے جھگڑوں کو مٹا کیوں نہیں دیتے

تم ہجر کے جھگڑوں کو مٹا کیوں نہیں دیتے (1930)
by نشتر چھپروی
324068تم ہجر کے جھگڑوں کو مٹا کیوں نہیں دیتے1930نشتر چھپروی

تم ہجر کے جھگڑوں کو مٹا کیوں نہیں دیتے
بگڑی ہوئی تقدیر بنا کیوں نہیں دیتے

درد دل بیتاب گھٹا کیوں نہیں دیتے
محفل سے رقیبوں کو اٹھا کیوں نہیں دیتے

کیوں ہے خفگی کس لئے ماتھے پہ شکن ہے
تقصیر مری آپ بتا کیوں نہیں دیتے

تم سے جو کیا کرتے ہیں ہر وقت دغائیں
اے حضرت دل ان کو دعا کیوں نہیں دیتے

مجبور ہوں میں کشمکش رنج و الم میں
تم آ کے مری جان چھڑا کیوں نہیں دیتے

تنگ آئے ہیں ہمسایہ جو فریاد سے میری
اس شوخ فسوں گر کو بلا کیوں نہیں دیتے

اک بوسۂ رخسار کا مدت سے ہوں سائل
ہیں آپ اگر اہل سخا کیوں نہیں دیتے

وہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ میں کس کو مٹاؤں
تربت کو مری لوگ بتا کیوں نہیں دیتے

مرتا ہوں میں تم پر جو کہا ان سے تو بولے
یہ سچ ہے تو پھر مر کے دکھا کیوں نہیں دیتے

وہ تذکرۂ صدمۂ ہجراں پہ شب وصل
بولے کہ اسے دل سے بھلا کیوں نہیں دیتے

جب میں نے کہا تم سے حسیں اور بہت ہیں
کس ناز سے بولے کہ دکھا کیوں نہیں دیتے

کیوں قتل کی پرسش پہ سر حشر ہو خاموش
الزام رقیبوں پہ لگا کیوں نہیں دیتے

ہے نشترؔ ناشاد جھکائے ہوئے سر کو
تم جوہر شمشیر دکھا کیوں نہیں دیتے


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.