تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
عشق کے ہوں میں دل افگاروں کے بیچ
عشق ہے سیر خدا اے دوستاں
اس لئے اشرف ہے اسراروں کے بیچ
منزل دور و دراز عشق میں
غم کو پایا ہم نے غم خواروں کے بیچ
دوستاں ہے لا دوا دور از شفا
عشق کا آزار آزاروں کے بیچ
اب تو ہے کنج قفس گھر پر کبھی
بلبلو تھے ہم بھی گلزاروں کے بیچ
کیا کہیں ہم کہہ نہیں سکتے ہیں یار
اندکوں میں ہے کہ بسیاروں کے بیچ
جس کے جویا مومن و مشرک ہیں وہ
سبحوں میں ہے نہ زناروں کے بیچ
رحم کر ہم پر بھی دل بر ہیں ترے
عشق کے ہاتھوں سے آواروں کے بیچ
گل نے تا دعویٰ کیا رخ سے ترے
بے قدر بکتا ہے بازاروں کے بیچ
یا حسین ابن علی ماتمؔ کو بھی
کیجے داخل اپنے زواروں کے بیچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |