تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
کیا خوب گزرتی ہے اوقات جدائی میں
رخصت ہو چلا تھا تب دامن نہ ترا تھاما
افسوس کہ ملتے ہیں اب ہاتھ جدائی میں
کیا ذکر ہے آنسو کا ظالم مری آنکھوں سے
خوں ناب ہی ٹپکے ہے یک ذات جدائی میں
جب وصل تھا ان روزوں یک دل ہی پہ آفت تھی
اب جان کا ہے سودا ہیہات جدائی میں
یہ نالہ و زاری یہ خستگی و خواری
جیدھر کو چلوں ؔجوشش ہیں سات جدائی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |