تنہائی (عظیم الدین احمد)

تنہائی
by عظیم الدین احمد

مجھ سا تنہا نہیں دنیا میں خدایا کوئی
میں نہ اپنا ہوں کسی کا بھی نہ میرا کوئی
کیا ملا مجھ کو چہل سالہ رفاقت کرکے
اب کسی پر نہ کرے آہ بھروسا کوئی
تابش ہجر نے دل کی یہ بنا دی صورت
جیسے ہو دھوپ میں تپتا ہوا صحرا کوئی
آتش شوق کی اٹھتی ہیں کچھ ایسی لہریں
جس طرح آگ کا بھڑکا ہوا دریا کوئی
ایک وہ دن تھا کہ روتوں کو ہنسا دیتا تھا
اب تو روتا ہوں جو دیکھا کہیں ہنستا کوئی
میں ہوں نیرنگی عالم کی مجسم تصویر
مجھ سے بہتر نہیں عبرت کا تماشا کوئی
میں وہ قطرہ ہوں سمندر سے جو محروم رہا
مجھ کو کیا موج میں آیا کرے دریا کوئی
بے رخی آہ یہ کیسی ہے کہ اس عالم میں
ملے لاکھوں نہ ہوا ایک بھی اپنا کوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse