تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا

تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا
by میر محمدی بیدار

تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا
اس معرکے میں پائے تحمل بھی چل گیا

ہیں گرم گفتگو گل و بلبل چمن کے بیچ
ہوگا خلل صبا جو کوئی پات مل گیا

اس شمع رو سے قصد نہ ملنے کا تھا ہمیں
پر دیکھتے ہی موم صفت دل پگھل گیا

منعم تو یاں خیال عمارت میں کھو نہ عمر
لے کون اپنے ساتھ یہ قصر و محل گیا

لاگی نہ غیر یاس حیات امید ہاتھ
دنیا سے جو گیا کف افسوس مل گیا

اس راہ رو نے دم میں کیا طے رہ عدم
ہستی کے سنگ سے جو شرر سا اچھل گیا

دیکھا ہر ایک ذرے میں اس آفتاب کو
جس چشم سے کہ بے بصری کا خلل گیا

گزری شب شباب ہوا روز شیب اخیر
کچھ بھی خبر ہے قافلہ آگے نکل گیا

قابل مقام کے نہیں بیدارؔ یہ سرائے
منزل ہے دور خواب سے اٹھ دن تو ڈھل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse