تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا
تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا
آؤ جی کس نے تم کو گھیر رکھا
ہم گئے واں تو یاں وہ آیا واہ
خوب قسمت نے ہیر پھیر رکھا
کر گیا وہ ہی راہ عشق کو طے
یاں قدم جس نے ہو دلیر رکھا
سب کو عاجز کیا فلک نے پر ایک
آہوئے دل پہ غم کو شیر رکھا
جا کے بیٹھے جو کوئے یار میں ہم
واں سے باہر قدم نہ پھیر رکھا
بعد مدت وہ دیکھ کر بولا
کس نے یاں خاک کا یہ ڈھیر رکھا
شکر اے درد عشق تو نے سدا
زندگانی سے ہم کو سیر رکھا
کیسا گھبرا گیا وہ کل ہم نے
ٹک جو رستے میں اس کو گھیر رکھا
خیر ہو یا الٰہی جرأتؔ نے
عاشقی میں قدم کو پھیر رکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |