تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں
تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں
جس میں نہ تو شریک ہو موت ہے زندگی نہیں
عشرت دید ہے یہی اپنا بھی کچھ رہے نہ ہوش
جلوہ بقید تاب دید اصل میں جلوہ ہی نہیں
اول عشق ہی میں کیا دل کا مآل دیکھنا
یہ تو ہے ابتدائے سوز آگ ابھی لگی نہیں
عشق ہے کیف بے خودی اس کو خودی سے کیا غرض
جس کی فضا ہو وصل و ہجر عشق وہ عشق ہی نہیں
یہ بھی نہ ہو خبر کہ سر سجدے میں ہے جھکا ہوا
جس میں ہو بندگی کا ہوش وہ کوئی بندگی نہیں
کس کا سر نیاز تھا پائے ایاز پر جھکا
مانع بندگئ شوق سطوت خسروی نہیں
کر نہ سکون دل کا غم ہادئ مبتلا ذرا
عشق کی بارگاہ میں درد کی کچھ کمی نہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |