تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے
تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے
اور بھی کچھ بھڑکنے لگا میرے سینے کا آتش کدہ
راس تجھ بن نہ آیا کبھی سبز پیڑوں کا سایا مجھے
ان نئی کونپلوں سے مرا کیا کوئی بھی تعلق نہ تھا
شاخ سے توڑ کر اے صبا خاک میں کیوں ملایا مجھے
درد کا دیپ جلتا رہا دل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے رات بھر خوں رلایا مجھے
اب مرے راستے میں کہیں خوف صحرا بھی حائل نہیں
خشک پتے نے آوارگی کا قرینہ سکھایا مجھے
مدتوں روئے گل کی جھلک کو ترستا رہا میں شکیبؔ
اب جو آئی بہار اس نے صحن چمن میں نہ پایا مجھے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |