تو ہے کعبہ میں تو پھر دل میں گزر کس کا ہے
تو ہے کعبہ میں تو پھر دل میں گزر کس کا ہے
لا مکاں تیرا اگر ہے تو یہ گھر کس کا ہے
روکنے آئیں فرشتے تو میں رک جاؤں گا
طالب دید ہوں تیرا مجھے ڈر کس کا ہے
صاف قدموں سے ترے جا کے لپٹ جائے گا
تیرے عاشق کے سوا ایسا جگر کس کا ہے
دل تو آغاز محبت میں ہوا ہے تیرا
اپنی گردن پہ ہے جو بار یہ سر کس کا ہے
قیس وحشی کا بنایا مجھے ثانی کس نے
عشق صادق کا نہیں ہے تو اثر کس کا ہے
تیرے انکار نے ڈالا ہے تحیر میں مجھے
دل میں اور آنکھوں میں در پردہ گزر کس کا ہے
کیا تماشا ہے جمیلہؔ کہ وہ پوچھے مجھ سے
دشت غربت میں یہ دل خاک بسر کس کا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |