تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب
شکوہ مجھے نہ ہو جو مکافات حد سے ہو
واں صلح ایک دم ہے لڑائی تمام شب
یہ ڈر رہا کہ سوتے نہ پائیں کہیں مجھے
وعدے کی رات نیند نہ آئی تمام شب
سچ تو یہ ہے کہ بول گئے اکثر اہلِ شوق
بلبل نے کی جو نالہ سرائی تمام شب
دم بھر بھی عمر کھوئی جو ذکرِ رقیب میں
کیفیتِ وصال نہ پائی تمام شب
تھوڑا سا میرے حال پہ فرما کر التفات
کرتے رہے وہ اپنی بڑائی تمام شب
وہ آہ، تار و پود ہو جس کا ہوائے زلف
کرتی ہے عنبری و صبائی تمام شب
وہ صبح جلوہ، جلوہ گرِ باغ تھا جو رات
مرغِ سحر نے دھوم مچائی تمام شب
افسانے سے بگاڑ ہے، ان بن ہے خواب سے
ہے فکرِ وصل و ذکرِ جدائی تمام شب
جس کی شمیمِ زلف پہ میں غش ہوں شیفتہ
اس نے شمیمِ زلف سنگھائی تمام شب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |