تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کا
تھوڑا ہے جس قدر میں پڑھوں خط حبیب کا
دیکھا ہے آج آنکھوں سے لکھا نصیب کا
ہم مے کشوں نے نشہ میں ایسے کیے سوال
دم بند کر دیا سر منبر خطیب کا
صیاد گھات میں ہے کہیں باغباں کہیں
سارا چمن ہے دشمن جاں عندلیب کا
اپنی زبان سے مجھے جو چاہے کہہ لیں آپ
بڑھ بڑھ کے بولنا نہیں اچھا رقیب کا
آنکھیں سفید ہو گئیں جب انتظار میں
اس وقت نامہ بر نے دیا خط حبیب کا
قسمت ڈبونے لائی ہے دریائے عشق میں
اے خضر پار کیجئے بیڑا غریب کا
وہ بے خطا ہیں ان سے شکایت ہی کس لیے
جوہرؔ یہ سب قصور ہے اپنے نصیب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |