تھکا لے اور دور آسماں تک
تھکا لے اور دور آسماں تک
پھر آخر گردش قسمت کہاں تک
بڑی اس دل کی بیتابی یہاں تک
ہمیں ہمیں ہم ہیں زمیں سے آسماں تک
دم وعدہ انہیں ہے بار ہاں تک
زباں تھک جائے جو اے بے زباں تک
مجھے پینا پڑے آخر وہ آنسو
جو بھر جاتے زمیں سے آسماں تک
کوئی سو بار اڑے سو بار بیٹھے
قفس سے یوں ہم آئے آشیاں تک
گلا بھی تھا کسی کا راز کوئی
کہ آ کر رہ گیا میری زباں تک
سلامت ہیں اگر میرے پر و بال
قفس جائے گا اڑ کر آشیاں تک
مری بیداریاں بیکار کیوں جائیں
انہیں پہنچا دو چشم پاسباں تک
کچھ اس نے اس طرح کاٹی مری بات
کہ ٹکڑے ہو گئی میری زباں تک
جنوں سے ہم نہ کوتاہی کریں گے
ہمارا ہاتھ پہنچے گا جہاں تک
خدایا میرے سجدے دور ہی سے
پہنچ جائیں کسی کے آستاں تک
سہارا کچھ تو درماندوں کو ہوتا
پہنچ جاتے جو گرد کارواں تک
مری فریاد سن کر چپ رہیں گے
اسے پہنچائیں گے وہ آسماں تک
مجھی پر چھوڑ دو میری مئے تلخ
مزا اس کا ہے کچھ میری زباں تک
کلیسا و حرم دونوں ہیں آباد
مرے ناقوس تک میری اذاں تک
کچھ ایسا ربط ہے صیاد کے ساتھ
ہمیں ہم ہیں قفس سے آشیاں تک
ہمیں ٹھکراتے جائیں جو وہاں جائیں
پہنچ جائیں یوں ہی ہم آستاں تک
معاصی کے سوا دو دو فرشتے
انہیں لادے پھروں یا رب کہاں تک
پہنچ جاؤں جو یا رب میکدے میں
مرا پانی بھرے پیر مغاں تک
وہ خوگر نالہ دشمن کا ہو جائے
نہ سنتا ہو جو حرف داستاں تک
ریاضؔ آنے میں ہے ان کے ابھی دیر
چلو ہو آئیں مرگ ناگہاں تک
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |