تھک گئے تم حسرت ذوق شہادت کم نہیں
تھک گئے تم حسرت ذوق شہادت کم نہیں
مجھ سے دم لے لو اگر تیغ ستم میں دم نہیں
دردمندان ازل رکھتے نہیں درماں کا غم
سینۂ صد چاک گل منت کش مرہم نہیں
روز مرتے ہیں ہزاروں دیکھ کر نیرنگ حسن
گر یہی عالم تمہارا ہے تو یہ عالم نہیں
مر مٹے ہم عشق کے شہرے وہی ہیں چار سو
شور رسوائی پس مردن بھی اپنا کم نہیں
نالۂ آتش فشاں یوں ہی اگر ہے اوج پر
تو نہیں اے آسمان فتنہ گر یا ہم نہیں
بے ثباتی پر بہار باغ کی روتا ہے چرخ
روئے گل پر قطرہ ہائے اشک ہیں شبنم نہیں
خوش ہیں میرے مرنے سے تسلیمؔ خویش و اقربا
خانۂ شادی ہے گویا خانۂ ماتم نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |