تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ

تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
by ریاض خیرآبادی

تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
اے شیخ یہاں کون ہے میں چور ہوں یا آپ

دیوانوں کے سر ہو گئی کیا زلف دوتا آپ
وہ جا کے گلے اپنے لگا لائے بلا آپ

ہنس ہنس کے مجھے آپ عبث کوس رہے ہیں
رو رو کے مرے واسطے مانگیں گے دعا آپ

اڑتے بھی اگر ہم تو قفس لے کے نہ اڑتے
صیاد قفس سوئے چمن اڑ کے چلا آپ

جو اٹھ نہیں سکتے تھے گئے اٹھ کے لحد میں
بیٹھے رہیں اب گھر میں لئے عذر حنا آپ

جاتے نہیں ہم مست کبھی اٹھ کے حرم سے
آتی ہے یہاں اڑ کے مئے ہوش ربا آپ

کیوں پھر گئیں کمبخت کی آنکھیں دم آخر
رکھتے تھے بہت غیر سے امید وفا آپ

آواز مری بیٹھی ہے اے حضرت زاہد
کیوں بہر اذاں آج دباتے ہیں گلا آپ

ہلکا سا غلاف ایک تھا صیاد قفس پر
تھی اور نہ کچھ روک رکی مجھ سے صبا آپ

ہم دل میں اتاریں گے یہ کہتی ہیں نگاہیں
آ جائیں کسی طرح لب بام ذرا آپ

قابو کا تمہارے بھی نہیں جوش جوانی
بے چھیڑے ہوئے ٹوٹتے ہیں بند قبا آپ

محتاط ریاضؔ آپ جوانی میں بہت ہیں
پیری میں بھی لوٹیں گے جوانی کا مزا آپ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse