تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے
تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے
پھرتے ہیں محتاج وہ اک دانے دانے کے لیے
شمع جلواتے ہیں غیروں سے وہ میری قبر پر
یہ نئی صورت نکالی ہے جلانے کے لیے
دیر جاتا ہوں کبھی کعبہ کبھی سوئے کنشت
ہر طرف پھرتا ہوں تیرے آستانے کے لیے
ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے
اے فلک اچھا کیا انصاف تو نے واہ واہ
رنج میرے واسطے راحت زمانے کے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |