تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب (II)
تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
جس طرح ہو جا صبا سے کاکل مشکیں خراب
جوں نسیم صبح غنچے گل کے سب برباد ہیں
سرد مہری سے بتوں کی ہیں دل رنگیں خراب
بے دماغی مت کر اے ظالم کہ جوں موج و حباب
دل مرا کر دے ہے پل میں ابرو پر چیں خراب
جوں جلے ہے شمع کا مشت زر اور تسبیح اشک
جس طرح سرکش کا ہے دنیا خراب اور دیں خراب
تھا بنا عزلتؔ وہ فولاد دل پرویز سے
تب تو تیشے نے کیا یوں خانۂ شیریں خراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |