تیرہ رنگوں کے ہوا حق میں یہ تپ کرنا دوا
تیرہ رنگوں کے ہوا حق میں یہ تپ کرنا دوا
تیرگی جاتی رہی چہرے کی اور اپچی صفا
کیا سبب تیرے بدن کے گرم ہونے کا سجن
عاشقوں میں کون جلتا تھا گلے کس کے لگا
تو گلے کس کے لگے لیکن کنھی بے رحم نے
گرم دیکھا ہوئے گا تیرے تئیں انکھیاں ملا
بو الہوس ناپاک کی ازبسکہ بھاری ہے نظر
پردۂ عصمت میں تو اپنے تئیں اس سیں چھپا
اشک گرم و آہ سرد عاشق کے تئیں وسواس کر
خوب ہے پرہیز جب ہو مختلف آب و ہوا
گرم خوئی سیں پشیماں ہو کے ٹک لاؤ عرق
تپ کی حالت میں پسینا آؤنا ہو ہے بھلا
دل مرا تعویذ کے جوں لے کے اپنے پاس رکھ
تو طفیل حضرت عاشق کے ہو تجھ کوں شفا
ترش گوئی چھوڑ دے اور تلخ گوئی ترک کر
اور کھانا جو کہ ہو خوش کا تری سو کر غذا
بو علیؔ ہے نبض دانی میں بتاں کی آبروؔ
اس کا اس فن میں جو نسخہ ہے سو ہے اک کیمیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |