تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں

تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں
by داغ دہلوی

تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں
اس کی قدرت کو دیکھتا ہوں میں

جب ہوئی صبح آ گئے ناصح
انہیں حضرت کو دیکھتا ہوں میں

وہ مصیبت سنی نہیں جاتی
جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں

دیکھنے آئے ہیں جو میری نبض
ان کی صورت کو دیکھتا ہوں میں

موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبیعت کو دیکھتا ہوں میں

شب فرقت اٹھا اٹھا کر سر
صبح عشرت کو دیکھتا ہوں میں

دور بیٹھا ہوا سر محفل
رنگ صحبت کو دیکھتا ہوں میں

ہر مصیبت ہے بے مزا شب غم
آفت آفت کو دیکھتا ہوں میں

نہ محبت کو جانتے ہو تم
نہ مروت کو دیکھتا ہوں میں

کوئی دشمن کو یوں نہ دیکھے گا
جیسے قسمت کو دیکھتا ہوں میں

حشر میں داغؔ کوئی دوست نہیں
ساری خلقت کو دیکھتا ہوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse