تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
ہمیں ہیں ایک ان میں جو ترا غم کھانے والے ہیں
عدم کے جانے والو دوڑتے ہو کس لیے ٹھہرو
ذرا مل کے چلو ہم بھی وہیں کے جانے والے ہیں
صفائی اب ہماری اور تمہاری ہو تو کیوں کر ہو
وہی دشمن ہیں اپنے جو تمہیں سمجھانے والے ہیں
کسے ہم دوست سمجھیں اس جہاں میں اور کسے دشمن
کہ جو سمجھانے والے ہیں وہی بہکانے والے ہیں
مرض بڑھ جائے جس سے اے طبیب اب وہ دوا دینا
سنا ہے آج وہ میری خبر کو آنے والے ہیں
نہ سنتے ہیں کسی کی اور منہ سے بات کرتے ہیں
خدا جانے مسافر یہ کہاں کے جانے والے ہیں
ترے بیمار کب کھائیں دوا پرہیز کیا جانیں
یہ ہیں خون جگر پیتے یہ غم کے کھانے والے ہیں
قیامت تک نہ وہ اے مشرقیؔ منزل پہ پہنچیں گے
خیالی گھوڑے جو میدان میں دوڑانے والے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |