تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
ورنہ اس آدمی سے کیا خاک ہو سکے ہے
تو ہی سمجھ سمجھ کر کر دے معاف ہم کو
تیرا حساب ہم سے کب پاک ہو سکے ہے
خطرہ نہیں کسی کا جو چاہے کر سکے ہے
تجھ سا کوئی جہاں میں بے باک ہو سکے ہے
رونے کو میرے جلدی ٹک دیکھ کھول آنکھیں
اب تک ہے چشم میری نمناک ہو سکے ہے
لاکھوں کا دل جلایا لاکھوں کا جی کھپایا
تجھ سے کوئی زیادہ سفاک ہو سکے ہے
وہ جلد دستیوں کے جاتے رہے زمانے
اب ہاتھ سے گریباں کب چاک ہو سکے ہے
جو کچھ شراب میں ہیں کیفیتیں نشے کی
تجھ میں مزا یہ کوئی تریاک ہو سکے ہے
اس ماہرو کو باہم کر دے حسنؔ سے اک شب
گردش سے تیری اتنا افلاک ہو سکے ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |