تیرے بھائی کو چاہا اب تیری کرتا ہوں پا بوسی
تیرے بھائی کو چاہا اب تیری کرتا ہوں پا بوسی
مجھے سرتاج کر رکھ جان میں عاشق ہوں موروثی
رفو کر دے ہیں ایسا پیار جو عاشق ہیں یکسو سیں
پھڑا کر اور سیں شال اپنی کہتا ہے مجھے تو سی
ہوا مخفی مزا اب شاہدی سیں شہد کی ظاہر
مگر زنبور نے شیرینی ان ہونٹوں کی جا چوسی
کسے یہ تاب جو اس کی تجلی میں رہے ٹھہرا
رموز طور لاتی ہے سجن تیری کمر مو سی
سماتا نئیں ازار اپنے میں ابتر دیکھ رنگ اس کا
کرے کمخواب سو جانے کی یوں پاتے ہیں جاسوسی
برنگ شمع کیوں یعقوب کی آنکھیں نہیں روشن
زمانے میں سنا یوسف کا پیراہن تھا فانوسی
نہ چھوڑوں اس لب عرفاں کو ناجیؔ اور لٹا دوں سب
ملے گر مجھ کو ملک خسروی اور تاج کاؤسی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |